ہم اس خوبصورت مذہب کے پیروکار ہیں جو ہر لمحہ نرمی، محبت اور امن کا درس دیتا ہے مگر بد قسمتی سے ہماری وابستگی ایسے معاشرے سے ہے جہاں لوگ مانتے تو اسلام کو ہیں، مگر اسلام کی نہیں مانتے۔ حیوانیت، بد اخلاقی، درندگی اور جہالت میں ہمارا کوئی نعم البدل نہیں۔ ہمارے معاشرے میں مرد و زن نام نہاد غیرت، انا اور اپنے شیطانی نفس کی تسکین کی خاطر رشتوں کو پامال کرتے ہیں اور کپڑوں کی طرح رشتے بدل لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد کے حالات دیکھتے ہوئے میں نے آج اس ظلم پہ قلم اٹھایا ہے کہ کیا واقعی ہی ہمارے رشتے کچے دھاگے کی مانند ہیں؟
کیا اتنی آسانی سے پکے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں؟ یا توڑ دیئے جاتے ہیں؟
ہمارے معاشرے میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں گھر آباد کم مگر بے آباد زیادہ ہوتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں طلاق کے کیس دائر کیے جاتے ہیں۔
اللہ عزوجل نے مرد کو عورت کا اور عورت کو مرد کا محتاج بنایا ہے، فطری طور پر ہر نفس شادی بیاہ کرنے پہ مجبور ہے، شریعت مطہرہ نے اولادِ آدم کے فطری تقاضوں کو پامال نہیں کیا۔ مگر اولاد آدم نے اپنی ازدواجی زندگی کو ایک کھلونے کی مانند سمجھا ہے اور اپنے حقوق و فرائض اور رشتے کو پامال کرنے میں سر گرم ہے۔
میاں بیوی کے تعلقات کو آئندہ زندگی کے لیے ختم کرنا طلاق کہلاتا ہے۔
رشتے عرش پہ ارض و سما کا مالک بناتا ہے، تو یہ فرش پہ ٹوٹ کیسے جاتے ہیں؟ اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: ”پاک مرد پاک عورتوں کے لیے اور بدکردار مرد بد کردار عورتوں کے لیے (القرآن)
پھراے بنی آدم ! کیونکر برائیاں تلاش کر رہے ہو؟ کیا تمہیں اس کی منصفانہ تقسیم پہ اعتبار نہیں؟
طلاق دینے کا حق ہمارے ہاں مرد کو سونپا جاتا ہے مگر آج کے دور میں طلاق کے کیسیز عموماً عورتوں کی طرف سے دائر کیے جا رہے ہیں تو کیا امتِ مسلمہ کے لیے یہ لمحہ فکریہ نہیں ہے؟ کیا ابھی بھی سوچنے کا وقت نہیں کہ عورت تو تن من دھن سب قربان کرنے کا نام ہے تو ایسے کون سے ناسازگار حالات ہیں جو نوبت خلع تک پہنچ گئی۔ شائد نہیں یقیناً آج کی حوس پرست دنیا میں حلال رشتوں کو چھوڑ کر حرام کی طرف جانا اولادِ آدم کی خصلت ہے، ان گنت گھر اس وجہ سے بے آباد ہو چکے ہیں، مگر جو عورتیں بلا ضرورت، بلا کسی تنگی کے طلاق کا مطالبہ کرتی ہیں تو ان کیلیے، ارشاد نبویﷺ ’’ جو عورت مرد سے بغیر کسی تنگی کے خلع مانگے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہو جاتی ہے‘‘۔
مگر یہاں مرد و زن اس کا ارتکاب کرنے میں اس قدر گم ہیں کے اپنی جوان اولاد کا بھی لحاظ نہیں رکھتے، وہ بھول جاتے ہیں ہماری اولاد ہمارا آئینہ ہے، مرد بھول میں ہے کہ آج وہ بنت آدم کی تذلیل میں غرق ہے کل اس کی بیٹی بھی کسی کی بیوی ہو گی۔
طلاق وہ فعل ہے اسلام نے اجازت تو دی ہے مگر اسے انتہائی نا پسندیدہ قرار دیا ہے، یہ وہ عمل ہے جس کے ارتکاب سے زمین سے لیکر عرش تک ہر ذی روح کانپ جاتی ہے مگر نہیں کانپتا تو آدم کی اولاد کا دل نہیں کانپتا، طلاق یافتہ عورت کا اس نام نہاد عزت دار معاشرے میں کوئی مقام نہیں، آدم کا بیٹا دودھ کا دھلا ثابت ہو ہی جاتا ہے مگر عورت کے کیے گئے فعل، یہ پارساؤں کی دنیا قبر تک یاد رکھتی ہے، عورت کا حسن غرور چھین کے دو کوڑی کا کر کے معاشرے میں مرد پھر پارساؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔
طلاق دے تو رہے ہو عتاب و قہر کے ساتھ
میرا شباب بھی لوٹا دو میرے مہر کے ساتھ
کیا رشتہ جوڑتے وقت مرد و زن نے اللہ پاک اور نبی پاک ﷺ کو گواہ نا بنایا تھا؟ کیا یہ پکے رشتےکچے دھاگے کی مانند ٹوٹ جاتے ہیں۔