چین نے حالیہ عرصے میں توانائی کی بچت اور کم کاربن ٹرانسپورٹیشن کو فروغ دینے کی کوششوں میں نمایاں تیزی لائی ہے۔انہی کوششوں کے ثمرات ہیں کہ ملک میں رجسٹرڈ نیو انرجی گاڑیوں کی تعداد اگست کے آخر تک 10.99 ملین تک پہنچ چکی ہے، جو کہ دنیا کی مجموعی تعداد کا تقریباً نصف ہے۔چین نیو انرجی گاڑیوں کی پیداوار اور فروخت کے لحاظ سے مسلسل سات سالوں سے دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے اور اس صنعت نے بھرپور طریقے سے ترقی کی ہے۔ چین ویسے بھی دنیا کی سب سے بڑی آٹو مارکیٹ ہے جس میں سال 2021 کے دوران نیو انرجی گاڑیوں کی فروخت سال بہ سال 160 فیصد بڑھ کر 3.52 ملین یونٹ ہو چکی ہے۔ مانگ میں اضافے کے ساتھ ہی چین کے مقامی نیو انرجی گاڑی سازوں کے لیے بے شمار مواقع سامنے آئے ہیں جبکہ رواں سال مقامی آٹو مارکیٹ میں فروخت ریکارڈ 6 ملین یونٹس تک پہنچنے کی پیش گوئی ہے۔
چین 2025 تک نئی گاڑیوں کی فروخت کے تناسب کو 20 فیصد تک بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ ہدف 2020 میں مقرر کیا گیا تھا، اور اس وقت مارکیٹ کے اندرونی ذرائع کا خیال ہے کہ ملک مقررہ وقت سے پہلے ہدف حاصل کر لے گا۔ تاحال چین نے نیو انرجی سے چلنے والی گاڑیوں کی ترقی کے لیے ساٹھ سے زائد پالیسیز متعارف کروائی ہیں اور 150 سے زائد معیارات مرتب کرتے ہوئے اُن پرعمل درآمد کیا ہے۔ نیو انرجی سے چلنے والی گاڑیوں کے فروغ اور حمایت کے لیے چین نے پالیسی سازی کے لحاظ سے دنیا میں اپنی نوعیت کا جامع ترین نظام قائم کیا ہے۔یوں چین میں نیو انرجی سے چلنے والی ماحول دوست گاڑیوں کی صنعت وسیع پیمانے پر اعلیٰ معیاری اور تیز رفتار ترقی کے نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔اس وقت چین میں نیو انرجی سے چلنے والی گاڑیوں کی کلیدی ٹیکنالوجی کا معیار بہتر ہوتا جا رہا ہے اور صنعتی چین بھی مکمل اور مستحکم ہو رہی ہے۔ٹیکنالوجی کی اختراعی صلاحیت نیو انرجی سے چلنے والی گاڑیوں کی صنعت کی تیزرفتار ترقی میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔دوسری جانب یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ ملک کی نیو انرجی گاڑیوں کی برآمدات نے رواں سال کے آغاز سے ترقی کی رفتار کو برقرار رکھا ہے۔
یہاں اس بات کا ادراک بھی لازم ہے کہ چین کی جانب سے 2030 تک تخفیف کاربن کے حوالے سے ”کاربن پیک” اور 2060 تک ”کاربن نیوٹرل” کے اہداف کو حاصل کرنے میں نیو انرجی وہیکل انڈسٹری اپنے کندھوں پر ایک اہم تاریخی مشن اٹھائے ہوئے ہے۔ یہ نہ صرف اقتصادی ترقی کے لیے ایک ستون کی مانند اہم صنعت ہے بلکہ چین کی آٹوموبائل مینوفیکچرنگ انڈسٹری کی تاریخ کو دوبارہ رقم کرنے اور کم کاربن کے حامل مستقبل کی تعمیر کے لیے بھی ایک بڑی طاقت ہے۔معروف گاڑی ساز ادارے ٹیسلا سمیت تقریباً تمام معروف غیر ملکی برانڈز اور اعلیٰ مینوفیکچررز اس حوالے سے چین میں جوائنٹ وینچرز یا منصوبہ جات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے چین کی کوشش ہے کہ ملک میں شفاف توانائی کو فروغ دیتے ہوئے تمام غیر ملکی برانڈز کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ نئی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی جانب آئیں اور چین کی بڑی منڈی سے فائدہ اٹھائیں۔ اس وقت ویسے بھی ” لو کاربن ترقی” ایک عالمی رجحان بن چکا ہے اور موجودہ ماحول دوست کوششوں کے تناظر میں اسے ایک ناگزیر عمل قرار دیا جا سکتا ہے، ایک بین الاقوامی اتفاق رائے موجود ہے کہ ماحول دوست اور کم کاربن کی حامل ترقی کا راستہ اختیار کیا جائے۔انہی حقائق کی روشنی میں یہ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ آئندہ تقریباً 10 سالوں میں، رکازی ایندھن والی گاڑیاں اپنے مارکیٹ شیئر کا نصف نئی توانائی کی گاڑیوں کے لیے چھوڑ دیں گی اور 2040 تک مین اسٹریم مینوفیکچررز فوسل فیول سے چلنے والی گاڑیاں مزید فروخت نہیں کریں گے۔ لہذا نیو انرجی گاڑیاں، خاص طور پر الیکٹرک گاڑیوں کی ترقی چین کی آٹوموبائل مینوفیکچرنگ انڈسٹری کی ترقی کے لیے نئے مواقع لے کر آئی ہے۔
چین کی پختہ مینوفیکچرنگ کی صلاحیتیں، موثر اور کم لاگت پروڈکشن سسٹم، نیو انرجی گاڑیوں کی مقامی سطح پر پیداوار کی ضمانت دیتا ہے اور عالمی منڈی میں کم لاگت پروڈیوسر کے طور پر چین کی برتری کو اجاگر کرتا ہے۔ ایک جانب جہاں یورپ، امریکہ اور جاپان میں کار ساز اداروں کی پیداواری صلاحیتوں میں چپ اور بیٹری کی قلت کی وجہ سے کمی لائی گئی ہے،وہاں چینی کار سازوں نے ملکی سطح پر تیار کردہ نیو انرجی گاڑیوں میں مضبوط نمو کو یقینی بناتے ہوئے چپ کی قلت کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں، پوری دنیا میں ایسی گاڑیوں کی وافر مانگ نے بھی چین کی نیو انرجی گاڑیوں کی برآمدات کو آگے بڑھانے کے وسیع امکانات پیدا کیے ہیں۔یوں چین ایک بڑے ملک کے طور پر تحفظ ماحول کی کوششوں کو اپنے عملی اقدامات سے مؤثر طور پر آگے بڑھا رہا ہے۔