آج جو تحریر کر رہی ہوں وہ بڑا حساس معاملہ ہے اسی لیے احتیاط برت رہی ہوں لیکن غلط نہیں بہت سے لوگ اس بات کی تائید بھی کریں گے اور بہت سے اعتراض بھی۔
خیر موجودہ سیلاب زدگان کیلئے الحمد للہ لوگوں نے بر پھر پور انداز میں حصہ لیا بلکہ اگر یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ حکومت سے زیادہ نجی امدادی اداروں کی کارکردگی سب سے اعلیٰ تھی، جس میں الحمد للہ جماعت اسلامی سرفہرست رہی جنہوں نے برائے راست منظم طریقے سے امداد مصیبت زدہ تک پہنچائی لیکن، کچھ اداروں اور تنظیموں کے ذریعے کہیں کہیں یہ امداد مکمل طور پر مصیبت زدہ تک نہیں پہنچی یعنی بیچ میں ڈنڈی ماری گئی یا بیچ والے آدھا مال غائب کردیتے مثلاً میری ایک عزیزہ (جو اس سلسلے میں کام کر رہی تھی) نے بتایا کہ لوگ دل کھول کرکھانے پینے اور ضروریات زندگی کی اشیاء امداد میں دے رہے ہیں ایک دن ان سیلاب زدگان کو یہ تمام چیزیں دینے کے بعد بھی اتنی بچ گئی کہ ایک بڑا کمرہ ان چیزوں سے مکمّل بھرا ہوا بچ گیا جسے دوسرے دن لوگوں کو (سیلاب زدگان) دینے کے لیے محفوظ کر دیا گیا لیکن دوسرے دن انتظامیہ کو خالی کمرہ ملا یعنی تمام مال غائب، یہ صورت حال صرف ایک جگہ نہیں بلکہ کئی جگہ پیش آئی ہوگی، کیا بیچ والے یا باہر سے کوئی آئے ہوئے نے صفائی دکھائی ؟۔
دوسرا حساس مسئلہ یہ ہے کہ کیا سیلاب زدگان کے مستقبل کے بارے میں کچھ لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے یا لوٹ مار کا یہ سلسلہ جاری رکھنے کے لیے ان سیلاب زدگان کو اسی طرح رکھا جائے گا (کیونکہ انہیں آرام سے بیٹھے بیٹھے سب مل رہا ہے) جس کے وہ عادی ہوتے جارہے ہیں؛ جو کہ صحیح نہیں ہے۔
ہم ہجرت مدینہ کے واقعات پر نظر ڈالیں تو انصار نے مہاجرین کی بے اندازہ امداد و خدمت کی لیکن انکے مستقبل کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کئے گئے جس سے نہ صرف مستحکم معاشرے نےجنم لیا بلکہ محبتیں بھی قائم رہیں یہ تعلیم ہمیں دین اسلام سے ملتی ہے
میری چھوٹی مرحومہ بہن گردوں کی پیوند کاری کے بعد ڈاکٹر ادیب رضوی کے ادارے سے معمول کے مطابق ماہانہ چیک اپ کرواتی تھی جہاں پورے پاکستان کے مختلف علاقوں سے غریب بھی علاج کے آتے ہیں جن میں سے اکثر بیچارے بے روز گار مفلسی کی زندگی گزار تے ہیں لہذا ڈاکٹروں نے مخیر مریضوں کی امداد سے ان بے روز گار مریضوں کے روزگار کےلیے انتظامات کئے کسی کو سبزیوں اورپھلوں کا ٹھیلا تو کسی کو چپس بنانے کی مشین وغیرہ لے کر دیں میری مرحومہ بہن نے بھی اپنے عزیز واقارب کے ذریعے امداد پہنچائی یعنی انہیں بھیک مانگنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان سیلاب زدگان کو دوسروں کا محتاج بنانے سے افضل نیکی یہ بھی ہے کہ انکے مستقبل کے بارے میں سوچا جائے انکے لیے رہائشی بستیاں بنائی جائیں انکو روز گار فراہم کرنے کے لیے فوری اقدامات کئے جائیں تاکہ وہ عزت وغیرت سے زندگی گزارنے کے قابل بن سکیں کیونکہ اس وقت انہیں مالی امداد کے ساتھ تربیت کی بھی سخت ضرورت ہے انکے بچوں کی تعلیم بھی اہم اور نہایت ضروری ہے یعنی صرف انکا آج نہیں بلکہ انکا کل(مستقبل) قابل توجہ ہے جس کے لیے خصوصی طور پر حکومت کے اقدامات اٹھانے ضروری امر ہے۔