معصومیت

ایک جملہ سننے کو ملا سیلاب میں لاکھوں لوگوں کو مرنا تھا کم مرے۔ پاکستانی ڈھیٹ ہیں مرتے ہی نہیں۔ کورونا تھا پوری دنیا میں حد سے زیادہ اموات ہوئیں پاکستان میں بہت کم ہوئیں۔ پاکستانی ڈھیٹ ہیں مرتے ہی نہیں۔ زلزلہ آیا زمین پلٹ گئی، سڑکیں پھٹ گئیں، عمارتیں ڈہ گئیں، پہاڑوں میں دراڑیں پڑ گئیں۔ اموات کم ہوئیں پاکستانی ڈھیٹ قوم ہے مرتی ہی نہیں۔

بچے دو ہی اچھے۔ ہزاروں قسم کی ادویات، طریقے، ٹوٹکے، ترغیبات کرکے دیکھ لیں، مگر قوم مانتی ہی نہیں۔ اللہ جتنے دے اتنے اچھے سب کے سب اچھے۔ مہنگائی کابم گرا کر دیکھ لیا، زیادہ بچوں کو کھلاؤ گے کہاں سے۔ جواب آیاجب اللہ روح زمین پر اتارتا ہے تو رزق بھی عطا کرتا ہے۔ بڑی ڈھیٹ قوم ہے آبادی کم ہی نہیں کرنے دیتی۔ پہلے نئی نسل کو شادی کے خلاف کیا، رشتے کے بجائے دوستی کو اہمیت دی، ذمہ داری کے بجائے آزادی اور لطف کو اہمیت دی تاکہ وہ شادی سے بھاگیں پھر ٹرانس جینڈر کا چکر چلا دیا۔ سال ہا سال کی منصوبہ بندی۔

اب ٹرانس جینڈر کا قانون پاس ہوگیا اب کوئی بھی کسی بھی جنس کا دعویٰ کرکے، دستاویزات تیار کرواکر، اپنی ہی جنس سے شادی کرلیں گے۔ بچے ہی نہیں ہوں گے آبادی خوبخود کم۔ نہ ہینگ لگی نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا آیا۔ کسی بیرونی سازش کی ضرورت نہیں، کسی کی مداخلت کی ضرورت نہیں۔ خود اپنے آپ کو خود ہی تباہ کرلیا بالکل اس طرح جس طرح سلطنت عثمانیہ میں تاج وتخت کے لئے خود اپنے ہی لوگوں کو مروا تے رہے، اتنی طاقتور، ناقابل شکست سمجھی جانے والی حکومت ختم۔

ہر بات کے لئے ہمارا نظریہ ہوتا ہے بیرونی سازش ہے، بیرونی ہاتھ ہے۔ جن سے پیسہ لیں گے قرضہ لیں گے تو ان کے ہاتھ پاؤں سب آئیں گے، کیوں وہ اپنی معیشت پر بوجھ برداشت کریں گے وہ تو مروائیں گے ہی۔ اگر بیرونی ہاتھ پاؤں نہیں چاہئے تو خود مختار ہو جاؤ۔

دوسروں کے ایجنڈے پر عمل کرنے کے بجائے اپنا خود کا ایجنڈا بنائیں۔ قلیل معیاد کے منصوبے اور طویل معیاد کے منصوبے بنائیں۔ قوانین اپنے معاشرے، تہذیب وتمدن، ثقافت اور اقدار کے حساب سے بنائے جائیں اور ان کے دور رس نتائج کا جائزہ لیا جائے۔ پھر ان کا اطلاق کیا جائے۔ ہمارے یہاں تحقیق کا فقدان ہے جب کہ ہر شعبہ میں تحقیق ضروری ہے۔