قصورواقعہ،کڑوا سچ ۔حصہ دوم

گزشتہ سے پیوستہ

مملکت خداداد پاکستان کا عدالتی نظام

تاریخ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اسلام نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی اور سستے ترین، فوری اور بلا امتیازانصاف کے حصول کو یقینی بنایا ۔ محمد بن قاسم کے بت اہل سندھ نے اس کے مسلم ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ فوری اور بلا متیاز برحق انصاف کی فراہمی کی وجہ سے بنائے تھے جو بیشک اسلام کے زریں اصولوں پر مبنی تھے۔

انصاف کو روز اوّل سے امرا ءاور استحصالی طبقے کی دسترس سے دور رکھا گیا۔ وقت کے حکمرانوں حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، ہارون الرشید اور عالمگیر جیسے جلیل القدر شخصیات کو عدالتوں میں پیش ہونا پڑا اور کئی فیصلوں میں قاضی نے حکمران طبقے کے خلاف فیصلہ دیا۔

عدالتوں نے انصاف کی ایسی مثالیں پیش کیں کہ امن و امان خود بخود قائم ہو گیا۔ قانون ہاتھ میں لینے کا معاملہ ختم ہوا اورانصاف کے نظام پہ اعتماد نے لوگوں کے جذبات کو قابو میں رکھا۔

اسلامی قوانین کا نظام، جن کو آج کے پڑھے لکھے لوگ وحشی قرار دیتے ہیں معاشرے میں ریاست کی رٹ اورجرم اورغلطی پہ بلا امتیاز قانون کا اطلاق کسی بھی بڑے سانحے کو لگام دیتا ہے ۔

اسلام کی سزاؤں میں وہ درس عبرت ہے جو کسی کو کسی جرم کے نتیجے میں ہونے والی سزا سے ہی خوف کی بدولت کسی اگلے قدم تک پہنچنے سے روک لیتا ہے ۔

قرآن واضح کہتا ہے کہ انسان کو اس کا علم نہیں کہ اللہ کی حدود کے بلا امتیاز اطلاق ہی میں خیر و برکت قائم ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کے خزانے زمین سے ابلتے اور آسمانوں سے برستے ہیں۔

بدقسمتی سے عدالتیں انصاف فراہم نہیں کررہیں۔ یہ تاثر اعلی ٰترین عدالتوں سے لیکر سب مجسٹریٹ لیول تک کا ہے۔

رشوت، اقربا پروری اور امتیاز نے عدالتی نظام کو پامال کر دیا ہے۔ وکلا ءہر مجرم کی پشت پر موجود ہیں۔ عدالتوں میں جنسی زیادتیوں کے کیسسز میں وہ وہ سوالات پوچھتے ہیں کہ آسمان بھی تھرا جائے۔

ابھی سندھ میں ہی شاہنواز جتوئی کا کیس ہی دیکھ لیں، فاروق ایچ نائیک پروفیشنل بن کر قاتل کی طرف سے پیش ہوتے ہیں

اس طرح کے کیسز میں کیونکہ عدالتیں فیصلے بروقت نہیں کرتیں تو کسی کو کوئی خوف نہیں۔ پیشی پہ پیشی، پھر مزید پیشیاں، سوال و جواب، کبھی وکلا کی ہڑتال تو کبھی جج صاحب کی چھٹیاں، کیا کوئی حصول انصاف کا سوچ بھی سکتا ہے؟

دلچسپ بیان سابق وزیر اعظم اور صدر مسلم لیگ ن اور صدر حکمران جماعت جناب نواز شریف نے دیا کہ انصاف اورعدالتی نظام بہت مہنگا ہو چکا ہے۔ ان کو اب یہ احساس ہوا کہ عدالت میں مقدمہ لڑنا کس قدر مہنگا ہو چکا ہے؟ اس کے بعد بھی انہوں نے کئی لوگوں کو اُس وقت حیران کر دیا جب انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر انہیں یہ بات اُس وقت پتہ چلتی جب وہ ملک کے وزیراعظم تھے تو وہ اس شکایت کو دور کرنے کے اقدامات ضرور کرتے۔ یہ ماننا تقریباً ناممکن ہے کہ یہ بات نواز شریف کو حال ہی میں وزیراعظم کے دفتر سے نکالے جانے کے بعد پتہ چلی ہے کہ ملک میں انصاف کا حصول واقعی بہت مہنگا ہو چکا ہے۔

تمام مسائل کا حل صرف اور صرف اور صرف اور صرف اللہ کے نظام کے قیام میں ہے، جہاں فیصلے تیز ترین اور انصاف پہ مبنی ہوں اللہ کی حدود کا قیام ہی امن اور انصاف کا ضامن ہے۔

 انیس سو اکیاسی میں لاہور باغبانپورہ تھانے کی حدود میں پپو نامی بچہ اغوا ہوا تھا۔ بعد میں اس کی لاش ریلوے کے تالاب سے ملی تھی۔ ضیاءالحق کا مارشل لا تھا۔ قاتل گرفتار ہوئے۔ ٹکٹکی پر لٹکانے کا حکم فوجی عدالت سے جاری ہوا۔ تین دن بعد ٹکٹکی وہاں لگی جہاں آجکل بیگم پورہ والی سبزی منڈی ہے۔ پورے لاہور نے دیکھا پھانسی کیسے لگتی ہے۔ چاروں اغواکار اور قاتل پورا دن پھانسی پر جھولتے رہے۔ آرڈر تھا کہ لاشیں غروبِ آفتاب کے بعد اتاری جائیں گی۔اس کے بعد دس سال کوئی بچہ اغوا اور قتل نہیں ہوا۔

 

حصہ
mm
کاشف حفیظ صدیقی ایک تحقیقاتی ادارے سے وابستہ ہیں ۔ کراچی کے مقامی روزنامے میں طویل عرصہ "منظر۔پس منظر" کے نام سے کالمز بھی لکھتے رہے ہیں ۔ 7 تحقیقی کتب کے مصنف بھی ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں