غلامی میں کام آ تی ہیں تدبیریں نہ شمشیریں

جسم کی آزادی اصل اور حقیقی آ زادی نہیں۔ اگر قلوب اذہان نظریات عقائد معاملات اور معمولات غیروں کے مرہون منت ہوں تو جسم ازاد ہوتے ہوئے بھی انسان بدترین غلامی میں مبتلا ہے۔ جسم غلام ہوں اور ذہن آزاد تو اللہ اس جسمانی قید سے نجات کی کوئی نہ کوئی سبیل نکال ہی دیتے ہیں، مگر جب ذہن غلام اور جسم آ زاد ہوں تو یہی غلامی کی بدترین شکل ہے جس میں اُمت مسلمہ گوڈے گوڈے تک دھنسی ہوئی ہے، مرغیانہ چال سر جھکا کر غیروں کے پھینکے ہوئے دانے یہ کرشمہ دکھاتے ہیں کہ اس قوم سے خودی و خوداری ہی چھین لیتے ہیں پھر انہیں مرغیانہ چال اور بھیک میں پھینکے ہوئے دانے ہی بھاتے ہیں اسی سے راضی بہ رضا رہتے ہیں یہ بھیک کے دانے انسان کی غیرت حمیت خودی اور خوداری کی موت ہیں۔

اللہ نے تو نبی کی زبان سے فرمایا تھا کہ تم مجھ سے یہ یک نکاتی کلمہ لاالہ الااللہ لے لو تو عرب اور عجم کے خزانے تمھارے زیر نگیں ہوں گے، عرب اور عجم کے خزانوں سے مراد دنیا کی امامت و سربراہ کاری اور پھر اس کے نتیجے دنیا تمھارے لیے مسخر کردی جائیگی۔

اور ایسا ہوا بھی چشم فلک نے وہ نظارا دیکھا بھی کہ ان عرب بدوؤں کو جو زندگی میں کسی ضابطے اور قانون کے پابند نہیں تھے اس یک نکاتی کلمے کوتھام کر دنیا کے امام بن گئے غیروں کےسسٹم کی پیروی کرنے والے نہیں بلکہ اپناسسٹم خود تخلیق کرنے والے اور دنیا کو اس پر چلانے والے بن گئے۔

اُمت مسلمہ کو تو وجود میں ہی اسی لیے لایا گیا تھا کہ وہ اپنی دنیا آپ پیدا کریں وہ کسی کے پیچھے نہیں بلکہ دنیا ان کے پیچھے چلے۔ مگر نبوت و خلافت کے ہی وہ زرین دور تھے جب چشم فلک نے وہ تجدید و احیائے دین کا وہ حسیں نظارا بھی دیکھا کہ معاشرے میں خوشحالی امن سکون کا وہ دور دورہ تھاجب زکوۃ لینے والے لوگ ڈھونڈے سے نہیں ملتے تھے مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوتی تھیں اور زمیں دہل جاتی تھی مومن کے سجدوں سے۔ اور اب زمیں ترستی ہے اور متلاشی ہے ان نمازیوں اور ان سجدوں کو۔

قران میں بیان کیے گئے مختلف قوموں کے قصےاس بات پر شاہد ہیں کہ جب کسی گروہ کا رشتہ اور رابطہ اس یک نکاتی کلمے اور اسکی اقامت سے منقطع ہوا اور اس کے نفاذ سے اعراض برتا تو شیطان کا تر نوالہ بن گئی۔ مختلف قوموں کی تہذیب و تمدن اورعقائد و نظریات کا شکار ہوگئی اور اپنی انفرادیت جو اللہ نے اسے بخشی دوسری قوموں کی نقالی میں گم کر بیٹھی۔

آج ٹرانس جینڈر کا قانون ہو یا عورت کی نام نہاد آزادی کا قانون سودی قوانین ہوں یا عدالتی قوانین معاشی قوانین ہوں یا معاشرتی اصول وضوابط بے حیائی کا کلچر ہو یا نظام تعلیم یا نصاب تعلیم سب کچھ مغرب کا مستعار ہے اور ملک کو سیکولر بنانے کی طرف پیش قدمی ہے۔ یہ سب اسی کلمے کو ترک اور رد کرنے کا شاخسانہ ہے چاہے ہم دن میں دس ہزار بار بھی کلمے کا زبانی ورد کرتے ہوں جب تک اسکی اقامت و نفاذ نہیں اس کا کوئی وزن نہیں۔ یہ سرکشیانہ اور باغیانہ روش ہے۔

مغرب جو آج الہہ کے درجے پر فائز ہے اسی کے قوانین اسی کی اسکیم اسی کے ضابطے اسی کے قائدے اُس دنیا میں غالب ہیں۔ تو یہی وہ الٰہی منصب ہے جس کا مغرب دعویدار ہے۔ اور وہ اُمت جس کو دنیا کو لیڈ کرنا تھا وہ بنی اسرائیل کے طرز فکر و عمل اپنا کر دنیا میں ذلیل و خوار ہے کیونکہ جس طرح بنی اسرائیل نے تجدید و احیائے دین پر مبنی خدائی کائناتی اسکیم لا الہ الااللہ کی اقامت ونفاذ کو ترک کیا تو ذلیل و خوار ہوئی اور اسکی طرز فکر وعمل کو گلے لگاکر اُمت بنی اسماعیل بھی ذلیل و خوار ہے۔ اور تب تک رہےگی۔ جب تک دوبارہ اسی لاالہ الااللہ کے احیائی کلمے اور اس کی اسکیم سے نہیں جڑ جاتی دوبارہ اسی اقامتی راہ روش اور رستے پر نہیں آجاتی۔ اسی بھولے ہوئے سبق کو خود بھی یاد کرنا ہے اور اُمت کو بھی یاد کرانا ہے اسی میں ہماری سرخروئی، ترقی، بلندی عظمت اور شان و رفعت ہے۔ بصورت دیگر خاکم بہ دہن ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔