منہ زور ہوئے دریا سمندروں کی طرح
بہالے گئےہزاروں بستیاں تنکوں کی طرح
سب خواب بکھر گئے سوکھے پتوں کی طرح
جب بچے ہاتھوں سے پھسل گئےریت کی طرح
مٹی مٹی اور پانی پانی ہوئے ننگے بدن
جیسے گھروندے خالی ہوئے گھونسلوں کی طرح
آب و دانہ نہیں کھانےکو ہاتھ ہوئے کشکول
ماؤں کی خالی گودوں کی طرح
خوشیاں بکھری تھیں کبھی ان کے چہروں پر
اب بہا لے گئےپانی کے ریلے ہواؤں کی طرح
لوگ ڈوب گئے پانی میں ٹوٹے کھلونوں کی طرح
اور مکین جدا ہوئے، بازؤں کی طرح
تیرگی نہیں جانتے ہیں یہ میدان و کھلیان
کھڑے رہے یہ پانی میں پہاڑوں کی طرح
اٹھو ہاتھ ملاؤ، آپس میں زنجیروں کی طرح
کیونکہ سب مسلمان ہیں جسد واحد کی طرح