ملک میں جاری معاشی بدحالی اور سیاسی گرما گرمی، احتجاج، جلسے جلوس، لوڈ شیڈنگ، بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں آئی ایم ایف کی ایماء پر بے جا اضافہ، مختلف ٹیکسز کے ادراک نے پہلے ہی عوام کا جینا دو بھر کردیا ہے ان حالات میں قدرتی آفات کا آنا عوام کیلئے قیامت صغریٰ سے کم نہیں،وطن عزیز کی معیشت و سا لمیت جہاں دیگر ناپید مسائل سے دو چار ہے وہاں پر سیلاب کی تباہ کاریاں بھی جاری ہیں گذشتہ سالوں کی طرح امسال بھی سیلاب، ملک میں تباہی کا پیغام لے کر آیا، سیلاب نے 2005 ء کے تباہ کن زلزلے سے زیادہ بڑی تباہی مچائی ہے۔ پاکستان بھر میں طوفانی بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے تقریباً1200کے لگ بھگ افراد جاں بحق، کم وبیش 7 لاکھ گھر تباہ جبکہ ڈیڑھ سوسے زائد پلوں کو نقصان پہنچاہے۔ صوبہ خیبر پی کے اور بلوچستان میں سیلا بی ریلوں نے شدت اختیار کرلی ہے جن میں انسانوں،چرندپرند، بڑی بڑی عمارتوں، فصلوں اور دوسری املاک سمیت ہر چیز خس و خاشاک کی طرح بہہ کر صفحہ ہستی سے مٹ رہی ہے۔
سندھ کے مختلف علاقوں میں سیلاب نے قیامت صغریٰ کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ملک بھر کے بیشتر علاقوں میں ریل، موبائل، انٹرنیٹ سروس، بجلی اور آمدورفت کا سلسلہ معطل ہو کر رہ گیاہے، سوات میں ایک معروف ہوٹل سمیت متعدد عمارتیں زمین بوس ہو کر پانی میں بہہ گئیں، کوئٹہ اور روجھان بھی زیرآب آچکا ہے۔ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کا جائزہ لینے والے ادارے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق املاک کا مجموعی نقصان 9 سو ارب روپے سے زائد کا ہے، ہزاروں مویشی سیلابی ریلوں میں بہہ گئے کئی مقامات پر انسانی نعشیں تیرتی نظر آئیں، متاثرہ علاقوں میں عملاً قحط کی کیفیت ہے۔ قدرتی آفت سے نمٹنے کیلئے کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے سیلاب متاثرین سے اظہار ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ہرممکن مدد کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
وزیراعظم پاکستان وزرائے اعلیٰ اور اعلیٰ حکام صرف تباہی و بربادی کا صرف اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارے سیاسی رہنمائوں میں اقتدار کی رسی کشی نے ملک کو تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ افسوس ! حکمران کرسی کے حصول کے تگ ودو میں مصروف ہیں تو دوسری جانب پورا ملک بلوچستان سے لیکر کراچی تک ڈوب چکا ہے۔ ووٹوں کیلئے دوسری پارٹی کے سیاسی ارکان کے جوڑ توڑ پر تو اربوں روپے اڑائے جاتے ہیں انہیں چارٹرڈ طیاروں میں بھر بھر کر لایا جاتا ہے۔ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ان کی عیاشیوں کیلئے قیام و طعام کا انتظام ہوتا ہے۔ کہاں گئے وہ عوامی حکمران، کہاں گئے ان کے چارٹرڈ طیارے، جو سیلابی ریلوں میں پھنسے بے یارو مددگار لوگوں کے لئے نہیں۔ فوجی ہیلی کاپٹر ان سیلاب زدگان کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کیلئے دن رات مصروف ہیں۔ اور بے چارے مظلوم و بے کس لوگ بے رحم بپھرے ہوئے پانی کی نذر ہو رہے ہیں۔ سیلاب نے پاکستان میں ایک انسانی المیے کی صورت اختیا ر کر لی ہے۔
مچھلیوں کے بجائے سیلابی ریلوں میں تیرتی انسانی لاشوں کی ویڈیوز دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کیا ان ڈوبتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر حکمرانوں کے دل نہیں پگھلتے۔ مقام افسوس ہے کہ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں مبتلا حکومتی اور اپوزیشن لیڈران کا سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وہ کردار نظر نہیں آیا جو آنا چاہئے تھا، وقت کا تقاضا ہے کہ قومی سیاسی قائدین بھی اب باہم یکجا ہو کر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی اور نقصان کا ازالہ کرنے کیلئے مؤثر حکمت عملی طے کریں۔ لیکن یہاں یہ خوش آئند امر ہے کہ فلاحی تنظیمیں متاثرہ علاقوں میں عوام کو سہولیات بہم پہنچانے کیلئے سرگرم عمل ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کسی سے کام لینا چاہے تو وہ چھوٹی چھوٹی سے ابابیلوں سے ہاتھوں کے لشکروں کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کرکے رکھ دیتا ہے۔
گذارش صرف اتنی ہے کہ قدرتی آفات میں تمام مذہبی تنظیموں کو کام کرنے کے مواقع فراہم کیا جائے کیونکہ حکومتی ادارے توسیاسی تنازعات کی زد میں ہیں اور اس وقت ہرکسی کو اپنے سیاسی مفادات مقدم ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ قومی سیاسی قائدین بھی اب باہم یکجا ہو کر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی اور نقصان کا ازالہ کرنے کیلئے مؤثر حکمت عملی طے کریں۔ حکومت وقت کواب چاہئے کہ بھارتی حکومت کے ظالمانہ اقدامات کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اسے عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ کالا باغ سمیت دیگر ڈیموں کی تعمیرکو یقینی بنائے تاکہ مستقبل میں درپیش آنے والے والے مسائل کا بروقت تدارک کیا جاسکے۔ مودی کی آبی جارحیت کا ہر صورت مقابلہ کرنا ہمارا قومی فریضہ ہے ورنہ ہماری آنے والی نسلیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔