رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے کہ: “انسانی جسم کے اندر گوشت کا ایسا لوتھڑا ہے کہ اگر وہ صحیح ہو تو پورا جسم صحیح رہتا ہے، اور اگر اس میں خرابی پیدا ہوجائے تو پورا جسم خراب ہوجاتا ہے۔ جسم کا یہ حصہ دل ہے۔”
بے شک یہ حدیث ترجمانی کرتی ہے دل کی۔ دل میں اچھے جذبات کو بھی جگہ دی جا سکتی ہے اور برے جذبات بھی اس میں پنپ سکتے ہیں، خیر کی شعائیں بھی ان میں سے پھوٹ سکتی ہیں اور شر کی شعلے بھی۔ اگر اسے خیر کا مسکن بنا لیا جائے تو پورے جسم پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں طبی لحاظ سے بھی اور طبعی اور نفسیاتی و روحانی پہلو سے بھی۔ تا ہم اسی دل میں غلط، گںدے، تکلیف دہ جذبات کو جگہ دے دی جائے تو اس لوتھڑے میں خرابی پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے جس پر قابو نہ پایا جائے تو یہ وبا کی طرح پورے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
ہر فرد کو یہ تجربہ ہوتا ہے کہ دل پر ناخوشگوار باتیں یا فعل اچھا اثر نہیں چھوڑتیں۔اکثر محاورات اس ضمن میں زبان زد عام ہیں۔ دل مٹھی میں آجانا، دل اچھل کر حلق میں پہنچ جانا، دل سیاہ ہو جانا، دل پر چوٹ لگنا، دل سیپارہ ہونا، دل چیرا جانا، دل ٹکڑے ہو جانا، دل کانپ جانا، دل دہل جانا۔ یقیناً ان محاورات میں ادبی چاشنی بھی موجود ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ قلب کی شعوری کیفیت کو بھی بیان کر رہے ہیں۔
دل صرف تمام جسم کو خون ہی پمپ نہیں کرتا، اکسیجن کی ہی ترسیل نہیں کرتا بلکہ اپنے اندر پنپنے والی سوچ اور جذبات کو بھی خون کے ساتھ سرکولیٹ کرتا ہے۔ آپ کسی کو تکلیف پہنچاتے ہیں یا گناہ کرتے ہیں تو دل پر سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے، کوئی آپ کو تکلیف پہنچاتا ہے تو دل گھٹ کر رہ جاتا ہے اور زخم زخم ہو جاتا ہے۔
ہر انسان کو اس لوتھڑے کی صحت کا خیال رکھنا چاہیئے۔ طبی صت کا بھی اور روحانی صحت کا بھی، یوں بھی روحانی طور پر صحت مند دل ہی اپنا فنکشن درست طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔ ورنہ بیماریوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو دل کی روحانی کمزوری کے سبب دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اور پھر، دل تو جانوروں کے بھی ہوتے ہیں جو محسوس کرتے ہیں اچھے اور برے رویے کو۔
ابنارمل انسان عام انسان کی نسبت زیادہ حساس ہوتے ہیں تو اسی دل کے سبب۔ لہذا اچھا سوچئے، اچھا بولئے، دوسروں کے ساتھ اچھا کیجئے، دل میں بھی دوسرں کے متعلق غلط جذبات کو نہ پنپنے دیجئے کہ یہ خود آپ کے دل کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اللہ کے ذکر دلوں کی تقویت کا بہتری علاج ہے خواہ یہ ذکر ،شکر کی شکل میں ہو یا صبر کی۔ غصے پر قابو پا لینے کے وقت ہو یا درگذر کرتے وقت۔ دوسروں کی نعمتوں پر خوش ہونے کی شکل میں ہو یا اپنی آزمائش پر پورا اترنے کی صورت میں۔ لہذا اپنے دلوں کو نیک اعمال سے تقویت دیجئے تا کہ دوسروں کے دلوں کی تقویت کا سبب بن جائیں۔