ہم اکثر سنتے ہیں کہ فلاح ملک میں مرد ،مرد سے اور عورت عورت سے شادی کر سکتے ہیں بلکہ بعض ممالک میں “ہم جنس پرستی” کا قانون بھی پاس کردیا گیا ہے یعنی وہاں اس کو کوئی بُرا فعل نہیں سمجھا جاتا۔ جب کہ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پراسی قبیع فعل کی وجہ زمین الٹ دی گئی تھی۔یوں قوم لوط کو تباہ و بربادکر دیاگیا۔ اسی طرح جب حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کی گمراہی اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور ہر طرح سے سمجھانے، عذابِ الٰہی سے ڈرانے کے باوجود بھی یہ لوگ اپنی سر کشی سے باز نہ آئے توان پراللہ تعالیٰ کاعذاب نازل ہوا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مرتبہ شیطان سے پوچھا، اللہ پاک کو سب سے بڑھ کر کون سا گناہ ناپسند ہے؟ ابلیس بولا، جب مرد مرد سے بدفعلی کرے اور عورت عورت سے خواہش پوری کرے۔(تفسیرروح البیان، 3/197 )
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ فی زمانہ لوگ بہت ڈھٹائی کے ساتھ ناجائز تعلقات کو بیان کردیتے ہیں اور اب اس فعل کو معیوب نہیں سمجھتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بدکاری وبد فعلی نہیں؟ المیہ یہ ہے کہ معاشرے میں معصوم بچیوں کی جانیں محفوظ نہیں ، نہ جانے کتنے ہی بچے اوربچیاں درندگی کا شکار ہوتی ہیں۔
ملک میں آج تک ایسا کوئی لیڈر نہیں آیا جسے نیک اور ایماندار کہا جا سکے۔معاشرتی برائیوں کی روک تھام پر کسی نے کبھی توجہ نہیں دی۔ ہمارے حکمران بات تودین اسلام کی کرتے ہیں لیکن عملاً وہ ملک میں اسلام کی عمل داری میں ناکام رہے۔ جب ملک میں فحاشی وعریانی دن بہ دن پھیلتی چلی جائے گی تو ایسی صورت میں عذابِ الٰہی ٰکو کوئی روک نہیں سکتا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک دفعہ اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ، یا اللہ ! جب تو ناراض ہوتا ہے تو کیا نشانی ہوتی ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھنا جب بارشیں بے وقت ہوں، حکومت بے وقوفوں کے پاس ہو اور پیسہ بخیلوں کے پاس، تو جان لینا کہ میں ناراض ہوں، پھر موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ یا اللہ! جب تو راضی ہوتا ہے تو اس کی کیا نشانی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ ! جب بارشیں وقت پر ہوں۔ حکومت نیک اور سمجھ دار لوگوں کے ہاتھ میں ہو، اور پیسہ سخیوں(سخاوت کرنے والے) کے ہاتھ میں ہو تو سمجھ لینا کہ میں راضی ہوں۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا میں اپنی اُمت میں سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے، اللہ تعالیٰ ان کو فضا میں اڑتے ہوئے ذرے کی طرح بنا دے گا، ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اللہ کے رسولؐ ! ان لوگوں کا حال ہم سے بیان فرمائیے اور کھول کر بیان فرمایئے تاکہ لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے ہم ان میں سے نہ ہو جائیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جان لو کہ وہ تمہارے بھائیوں میں سے ہی ہیں، اور تمہاری قوم میں سے ہیں، وہ بھی راتوں کو اسی طرح عبادت کریں گے، جیسے تم عبادت کرتے ہو، لیکن وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب تنہائی میں ہوں گے تو (حرام کاموں کا ارتکاب کریں گے)۔
بیشک!بے وقت بارشیں، وقفے وقفے سے بارشیں، اللہ تعالیٰ کی شدید ناراضگی کا باعث ہیں۔مگر اس کے باوجود ہم عبرت حاصل نہیں کرتے۔ قرآن پاک میں ارشادِ ربانی ہے میں آپ کو نصیحت دیتا ہوں تاکہ آپ سبق حاصل کریں اور جو نصیحت نہیں حاصل کرتا میں اسے عبرت کا نشان بنا دیتا ہوں، ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے کیا کیا؟؟ ہم نے تو ایسا کچھ نہیں کیا ۔ہم سے زیادہ گنہگار لوگ بیٹھے ہیں انہیں تو اللہ تعالیٰ کچھ نہیں کہہ رہا تو پھر ہماری پکڑ کیسے ہوسکتی ہے؟؟ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’میں نے ڈر والوں کے لیے کھلی نشانیاں دی ہیں ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک نہیں کئی مواقع فراہم کرتا ہے کہ ہم سنبھل جائیں اور گناہوں سے توبہ کرلیں۔ مگر ہر بار ہم یہی کہتے ہیں کہ ہم نے کیاکیا؟۔ غیر شائستہ، غیر اخلاقی ویڈیوز بنانا، انہیں سوشل میڈیا پر وائرل کرنا بھی تو ایک گناہ ہے۔ دوسروں کی بہوبیٹیوں کی ویڈیوز وائرل کرکے مزے لینا بھی اکثریت کی ایک عادت بن چکی ہے، کیونکہ ان کی سوچ کے مطابق یہ ان کی عزت نہیں ہوتی، حالانکہ ہمیں اپنی بہو بیٹیو ں کی طرح سب کی عزت کا خیال رکھنا چاہئے۔ سوشل میڈیا پربے شمار خواتین خود اپنے جسم کے ہر حصے کو نمایاں کرتی نظرآتی ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ کیا یہ بدکاری وبد فعلی نہیں؟۔
شراب عام ہے پہلے ان سب باتوں کو معیوب سمجھا جاتا تھا اب محفلوں میں شراب کا استعمال پانی کی طرح ہوتا ہے جس جس چیز سے ربّ نے منع فرمایا، وہ سب ہماری قوم کررہی ہے، کوئی معاشرتی برائیوں اور ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا۔ اکثریت یہ کہتی ہے ہم آواز کیوں اٹھانے لگے، ہم تو گناہ نہیں کررہے، یہ سب جو کررہے ہیں وہ سزا بھگتیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہے، ہم بھی اس کی سزا بھگتیں گے۔ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے قاتل چار لوگ تھے، مگر پوری قوم تباہ ہوئی۔ باقی لوگوں کا جرم چپ رہنا تھا۔
ایک پوسٹ نظر سے گذری، لکھا تھا کہ یہ سیلاب عذاب نہیں بلکہ ہماری آبی مس مینجمنٹ ہے، گناہوں کی وجہ سے اگر عذاب ہوتا تو غریب کی جھونپڑیوں کی بجائے بنی گالا، رائے ونڈ محل، لال حویلی، آسٹریلیا کا جزیرہ اور ڈی ایچ اے میں بھی سیلابی صورتحال ہوتی۔ ہمیں کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ بنی گالہ اور رائے ونڈ والوں سمیت دیگر لوگوں کو مزید چھوٹ دے رہا ہے یا وہ بخشے ہوئے ہیں۔ ہمیں کیا علم، ان کی کوئی نیکی ان کو بچا رہی ہے یا اللہ تعالیٰ مزید ان کو مہلت دے رہا ہے کہ کر لیجیے جتنے گناہ کرنے ہیں لوٹ کر تو میرے پاس ہی آنا ہے۔
قرآن شریف کو ترجمے سے پڑھ کر دیکھیے، کیا کیا کچھ نہیں بیان کیا گیا کھلی اور واضح نشانیاں دی گئی ہیں۔ یہ عذاب ہمارے ہی بُرے اعمال کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے جسے ہم جسٹ فار انجوائے منٹ کا نام دیتے ہیں۔ یہ جسٹ فار انجوائے منٹ ہی ہے جو عذابِ الٰہی کو دعوت دے رہا ہے۔ معاشرے میں دھیرے دھیرے بدکاری بے حیائی پھیلتی جارہی ہے ہم لوگ نبی کریم ﷺ کی امت میں پیدا ہوکر سمجھتے ہیں کہ ہم کچھ بھی گناہ کرلیں، تو بخشیں جائیں گے۔ کون ہے اللہ کے سوا جو ہمیں عذاب سے بچالے گا پاکستان کے مختلف حصوں میں آنے والا سیلاب اور اس کی تباہ کاریاں لمحہ فکریہ ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکمران اور عوام دونوں ہی ہوش کے ناخن لیں۔ ملک میں معاشرتی برائیوں کی روک تھام کیلئے قانون سازی کی جائے۔ اور ایک اسلامی فلاحی معاشرے کی تشکیل میں حکمرانوں سمیت ہر شخص اپنا اپنا کردار ادا کرے۔
اپنے ربّ سے گناہوں کی معافی مانگیں، بیشک ! وہ حکمت والااور اپنے بندوں کو معاف کرنے والا ہے۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو بخشے اور اُمت مسلمہ پر رحم فرمائے۔ آمین۔