میرا رب بڑا منصف ہے اپنے بندوں کو انکی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا اور وہ بندے جو ہر حال میں چاہے دکھ سکھ ہو یا آزمائش، صبر وہ شکر سے کام لیتے ہیں اور تکلیف و آزمائش کو اپنے رب کی طرف سے سمجھتے اور اسی کو پکارتے ہیں ، پھر میرا رب ایسے بندوں کو مایوس نہیں کرتا ۔سبحان الله !
ریحانہ شادی کے بعد گھر اور گھرداری میں بڑی تنددہی سے جت گئی، شوہر سسر اور شادی شدہ نندوں کے دل جوئی میں کوئی کوتاہی نہیں برتی۔ رب العالمین کے کام اور مصلحتیں وہی جانے شادی کو چھ سات سال گزر گئے لیکن باوجود علاج معالجہ کے ریحانہ اولاد سے محروم رہی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھر والوں کے رویوں میں تبدیلی آتی گئی، اب گاہے بگاہے نندیں اپنے بھائی کو دوسری شادی پر اُکسانے لگیں، اس صورت حال سے وہ گھبرا گئی پہلے سے بھی زیادہ وہ سسر اور نندوں کا خیال رکھنے لگی ،شادی کے 14 سال بعد جب اسے ڈاکٹر نے واضح الفاظ میں بتایا کہ اب وہ ماں نہیں بن سکتی تو اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔
اس دن وہ اکیلے خوب روئی لیکن پھر اس نے سوچا یہ میرے رب کی طرف سے آزمائش ہے اسکے رب کی ا س میں ضرور کوئی مصلحت ہوگی لہٰذا صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں ،اسنے اپنے دل کو تو سنبھال لیا لیکن اس دنیا کا کیا کیا جائے، لہٰذا آس پاس سرگوشیاں شروع ہوگئیں،آج گھر میں صبح سے ہی چہل پہل تھی ،تینوں نندیں اپنے بچوں کے ساتھ آئی ہوئی تھیں وہ ہمیشہ کی طرح انکی او بھگت میں مصروف ہوگئی شام کو جب کچھ مہمان آئے تو معلوم ہوا کہ اسکے شوہر کا رشتہ دوسری جگہ تے ہو چکا ہے،لیکن لڑکی والوں کی شرط تھی کہ ہمیں رشتہ منظور ہے مگر پہلی بیوی کو طلاق دے۔
یہ بات اسے معلوم ہوا تو بہت روئی شوہر سے کہا کہ بے شک آپ دوسری شادی کر لیں لیکن مجھے طلاق نہ دیں میں ایک کونے میں پڑی رہوں گی شوہر پر اسکے رونے دھونے کا کوئی اثر نہیں ہوا طلاق کا پروانہ لیکر ماں کے گھر پہنچی ایک نئی آزمائش کا آغاز ہوا، کل تک وہ اس گھر میں بڑے شان سے شوہر کے ساتھ داخل ہوتی تھی تو بھائی بھابھیاں بڑی اوبھگت کرتیں، آج ان سب کے رویوں میں واضح تبدیلی تھی سواے بوڑھی ماں کے جس نے اپنے کانپتے بازوؤں میںاسے سمیٹ لیا، چار مہینے عدت کے اس گھر میں دل پر جبر کرکے گزارے لیکن یہاں رہ کر وہ مزید اپنے آپ کو آزمائش میں نہیں رکھنا چاہتی تھی لہٰذا وہ نزدیکی علاقے میں دوکمروں کا فلیٹ کرائے پر لیکر وہاں شفٹ ہوگئی دوران عدت اس نے اسکول میں اپنی ملازمت کا بندوبست کرلیا تھا، اماں پڑوس میں ہی تھیں وہی بیٹی کا زمین پر الله رب العزت کے بعد واحد سہارا تھی۔
اماں نے اور اس کی کچھ دوستوں نے دوسری شادی کے لیے کوششیں شروع کر دیں لیکن اسکا بانجھ پن _ _ وہ اپنی خامی کو آنے والے رشتے سے پوشیدہ رکھ کر اپنی زندگی کو مزید الجھنوں میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ صبر، شکر اور رب العزت کامل بھروسہ ہی اس کو حوصلہ دے رہا تھا چنانچہ وہ سنجیدگی سے درس و تدریس میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے لگی اس سے جس قدر ممکن ہوسکتا دوسروں کی مدد کرنے سے اپنے آپ کو نہیں روکتی۔
میرا رب بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے وہ اپنے بندوں کو کیسے بیچ منجدھار میں اکیلا چھوڑ سکتا ہے، سلمان کا رشتہ اسکی ایک جاننے والی عزیزہ کے ذریعے آیا جو ایک اعلیٰ عہدے پر فائز نیک انسان تھا تمام صورتحال سے واقف ہونے کے باوجود اس نے اس رشتے کو دل سے قبول کیا کہ وہ ایک نیک زوجہ کا ہی خواہش مند ہے ریحانہ نے سلمان سے کوئی بات نہیں چھپائی _ _ اسطرح دونوں ازدواجی بندھن میں بندھ گئے۔
آج ریحانہ اپنے ہمسفر کے ساتھ ایک پرسکون زندگی گزار رہی ہے، دونوں میاں بیوی خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیے رہے ہیں یہ ہی اب انکی زندگی کا مقصد ہے، بیشک جو اپنے رب سے ناطہ جوڑتے ہیں اللہ بھی انہیں اطمینان قلب سےنوازتا ہے۔