رکشے سے اتر کر کرایہ ادا کیا تو بیس روپے کم تھے- جلدی میں ہاتھ آیا نوٹ رکشے والے کو پکڑا دیا- اس نے فوراً کہا کہ باجی یہ بیس روپے نہیں بڑا نوٹ ہے- میں تو کرایہ ادا کر کے آگے بڑھنے کو ہی تھی مگر رکشے والی کی بات سن کر حیرت ہوئی- ایسا لگا جیسے قائد کی آنکھیں چمک اٹھیں ہوں-
اکثر یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ اس ملک کو ہر آنے جانے والے نے لوٹا ہے تو یہ اب تک کیسے قائم ہے- یقیناً ابھی کچھ اچھے لوگ موجود ہیں جو لالچ اور ریاکاری سے پاک ہیں- کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ ایک پرانا اور جگہ جگہ سے ٹوٹا ہوا رکشہ چلا کر گزارا کرتے ہیں- کم سے کم سکون کی نیند سوتے ہوں گے-
مگر میں نے قائد کی آنکھوں میں نمی دیکھی جب صدارتی انتخابات 1965ء میں مادر ملت کو ان کے حریفوں کی جانب سے برا بھلا کہا گیا- وہ خاتون، ڈھاکہ میں جسے دیکھنے کے لیے تقریباً 250,000 لوگ جمع ہوئے، اور ایک ملین نے وہاں سے چٹاگانگ تک 293 میل کا راستہ طے کیا۔ وہ جس ٹرین میں سوار تھیں وہ بائیس گھنٹے تاخیر کا شکار ہوئی کیونکہ ہر اسٹیشن پر لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے ایمرجنسی نافذ ہو گئی تھی- ہر شخص ان سے بات کرنے کا خواہاں تھا- اس ملک کی آزادی کے لئیے شانہ بشانہ محمد علی جناح کا ساتھ دینے والی ان کی ہمشیرہ کو دھوکے سے انتخابات میں ہرا دیا گیا تب ایسا لگا کہ میرے قائد کی آنکھیں نم تھیں-
تاریخ میں ایسا کئی بار ہوا- جب دسمبر 1970ء میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی اور توقع کی جارہی تھی کہ ان کی جماعت نا صرف ملک کو نیا آئین دے گی بلکہ حق حکمرانی بھی حاصل ہوگا- مگر فوجی حکمران، دوسرے نمبر کی جماعت پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے- 25 مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کا اعلان کر دیا گیا- شیخ مجیب الرحمٰن کو غدار کہا گیا- یہاں تک کہا گیا کہ چھوٹے قد کے بنگالی نہ تو فوج میں شامل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ملک و قوم کی ترقی میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں- جب سقوط ڈھاکہ عمل میں آیا تو شاید قائد، جناح کی آنکھیں نم ہوئی ہوں گی-
اسی بنگلہ دیش کا شرح خواندگی آج ٪79.9 ہے اور پاکستان آج بھی٪ 58.00 پر ہے- اسی ملک کا ٹکا آج پاکستانی 2,33 روپے کے برابر ہے- جانے اس بات پر بانی پاکستان کی آنکھیں نم ہوں گی یا چمکتی ہوں گی- ہمارے نام نہاد راہنما شش و پنج کا شکار ہیں کہ کیسے چھوٹے قد کا بنگالی اتنی ترقی کر گیا-
ملک ایک بڑے سیلاب کی ذد میں آیا کتنے خاندان اجڑ گئے، کتنے والدین نے بھوک سے اپنے بچوں کو بلک بلک کر مرتے دیکھا- ایسے میں بہت اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں نے ہیلی کاپٹر کی سیر کا سوچا اور لگے ہاتھوں عوام کی مدد بھی کر ڈالی جائے- ہیلی کاپٹر سے روٹیاں پھینکی گئیں- جو کسی بھوکے کے ہاتھ آئیں یا نہیں لیکن سیلاب کے باعث پڑے شگافوں کی نذر ضرور ہوئیں- بھوکے پیاسے لوگ جب کچھ دور پڑی روٹی کو دیکھتے ہوں گے تو کیسا محسوس کرتے ہوں گے- یہ مہنگے کپڑے تن پر سجائے، اور اپنی میزوں پر دنیا جہاں کے کھانے کا لطف اٹھانے والے کیا جانیں- اُس وقت بھی قائد کی آنکھیں نم ہوں گی-
ایک ڈاکٹر علاج اس لیے نہیں کرتا کہ مریض ٹھیک ہو جائے بلکہ اس لیے کرتا ہے کہ مریض مستقل اس کا گاہک بن جائے- تعلیم کا مقصد علم کی روشنی سے روشناس کروانا نہیں بلکہ ایک بابو بنانا ہے جو نظام کی غلامی کرنا سیکھے- ہنر مند اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ملک میں رہنا نہیں چاہتے کیونکہ انہیں اپنا اور اپنی اگلی نسلوں کا مستقبل محفوظ کرنا ہے جو پاکستان میں رہ کر ممکن نہیں- یہ سوچ پنپتی جا رہی ہے- معاشرتی رویوں میں انتہا پسندی بڑھتی جا رہی ہے- اور ہر غلط رویے کے پیچھے امریکی اور یہودی سازش پنہاں ہوتی ہے- امریکہ کو منہ بھر بھر کر برا کہنے والے کو اگر ویزہ مل جائے تو شاید ایک پل بھی ضائع نہ کرے اور پاکستان جیسے ملک سے بھاگ نکلے- ایسی سوچ کی وجہ حب الوطنی کا فقدان ہے یا معاشی طور پر پریشان ایک عام آدمی کی خالی جیب- جو بھی ہے میرے قائد، جناح کی آنکھیں نم ہیں-
پاکستان جیسا زرخیز ملک آج معاشی بحرانوں کا شکار ہے- پاکستان ایشیاء پیسفک خطے کے 39 ممالک میں 34 ویں نمبر پر ہے اور اس کا مجموعی اسکور علاقائی اور عالمی اوسط سے کم ہے۔ خوشحالی انڈیکس کی مجموعی درجہ بندی میں پاکستان 167 میں سے 138 ویں نمبر پر ہے- اس کے باوجود آج ملکی سیاست کا یہ حال ہے کہ بڑی جماعتوں کو صرف اپنے اپنے اقتدار کی ہوس ہے- عدالتیں راتوں کو لگتی ہیں، فیصلے سنائے جاتے ہیں- کون سی آئین کی شق کے مطابق کون کرسی پر براجمان ہو سکتا ہے اور کون نہیں- ایک عام پاکستانی ہر سال آزادی کے دن اسی سوچ میں گم رہتا ہے کہ ملک آزاد ہوئے تو کئی برس ہوگئے مگر کیوں آج بھی ایک عام آدمی چند خاندانوں کا غلام ہے- آخر وہ آزادی کا دن کب آئے گا جب کوئی اپنے بنک اکاؤنٹ بھرنے کے بجائے یہ سوچے گا کہ ایک عام پاکستانی کا پیٹ کیسے بھرنا ہے- وہ آذادی کب ملے گی جب اپنے ملک کے حکمران اپنے ہی ملک میں رہیں گے-
میرے قائد، اس قوم کے راہنما کی آنکھیں ضرور نم ہوں گی جب کسی کو رشوت ستانی اور قانون شکنی پر سزا ہو تو نعرے لگا دئیے جاتے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں پڑ گئی ہے- قائد اعظم محمد علی جناح نہ تو صوبائیت کے حق میں تھے نہ ہی جاگیردارانہ نظام کے حمایتی- ریاستی نظام پر کسی مخصوص طبقہ کی اجارہ داری کے سخت خلاف تھے-
’’میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے خرچ پر ایسے نظام کی بدولت پھل پھول رہے ہیں جو اتنا فرسودہ ہے کہ اس نے ان جاگیرداروں کو اتنا خود غرض بنادیا ہے کہ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا مباحثہ بے معنی ہے۔ عوام کا استحصال ان کے خون میں رچ بس گیا ہے۔ وہ اسلام کا سبق بھول چکے ہیں‘‘۔ ( آل انڈیا مسلم لیگ سیشن، دہلی، 24 اپریل 1943)
جناح کے نزدیک دنیا کی برق رفتاری کا ساتھ دینے کے لیے حقیقی معنوں میں تعلیم کی ضرورت تھی- ایسا تعلیمی نظام جو غلام پیدا نہ کرے بلکہ صلاحیتیں اجاگر کرنے میں مدد گار ثابت ہو- ایک موقعہ پر انہوں نے فرمایا؛ ’’تعلیم کے بغیر مکمل تاریکی ہے اور تعلیم روشنی ہے۔ اس عوام کے لئے تعلیم زندگی اور موت کا سوال ہے۔ دنیا جس برق رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے کہ اگر اس وقت تم نے تعلیم کا دامن نہ تھاما تو نہ صرف پیچھے رہ جائو گے بلکہ ناپید ہوجائو گے۔ “
افسوس کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں سب سے ذیادہ نظر انداز کیا جانے والا شعبہ تعلیم ہے- جاگیر دارانہ سوچ رکھنے والے کیسے یہ چاہیں گے کہ ایک عام پاکستانی حقیق معنوں میں تعلیم یافتہ ہو اور خود کو پہچانے- انہیں تو وہی سوچ چاہیے جو پڑھ لکھ کر یا ہنر سیکھ کر کسی ترقی یافتہ ملک کی جانب کوچ کر جائیں اور اپنی وسیع النظری سے دوسروں کو فیض یاب کریں- ساتھ یہ کہنا نہ بھولیں کہ پاکستان میں رکھا ہی کیا ہے- میرے قائد جناح کی آنکھیں نم ہوں گی-
’’بدعنوانی بھارت میں اور بالخصوص مسلمانوں کے درمیان ایک لعنت ہے، خاص طور پر نام نہاد تعلیم یافتہ اور طبقۂ فکر میں۔ بدقسمتی سے یہی طبقہ عقلی طور پر اور اخلاقی طور پر بدعنوان اور خودغرض رہا۔ بے شک یہ بیماری عام ہے، لیکن مسلمانوں کے اس مخصوص طبقے میں یہ بہت زیادہ ہے۔‘‘ (محمد علی جناح کا اصفہانی سے خطاب، 6 مئی1945ء)
یہاں یہ حال ہے کہ پانچ سو ارب سے بھی ذیادہ کے اثاثے ہمارے حکمران طبقے نے غیر ملکی بنکوں میں رکھوائے ہوئے ہیں- پیرس میں مقیم گروپ نے پاکستان کو 2018 میں اس فہرست میں شامل کیا۔ “گرے لسٹ” ان ممالک کی فہرست جن کی حکومتوں میں منی لانڈرنگ، دہشت گردی کی مالی معاونت، اور پھیلاؤ کی مالی اعانت کا مقابلہ کرنے کے لیے اسٹریٹجک خامیاں ہیں۔
میرے قائد، جناح کی آنکھیں تو نم ہوں گی-
یہ ملک الله تعالیٰ کی کشتی ہے اسے تو بے شک اللہ سبحان تعالیٰ ہی چلا رہے ہیں مگر یہاں حسن عدیل جیسے بچے بھی ہیں جو کسی غریب کو بھوکا نہیں دیکھ سکتے- “بھوکے نہیں سوئیں گے“ بارہ برس کی عمر میں کھانا تقسیم کرتے ہیں- اس عمر کے بچے جیسا جذبہ ہو تو احساس ہوتا ہے کہ ملک میں ابھی کچھ اچھے لوگ باقی ہیں-ہارون نے اپنے آئی جی سی ایس ای او اور اے لیولز میں 87 اے حاصل کرکے عالمی ریکارڈ توڑ دیا۔ایمان انڈر 14 ٹورنامنٹ میں ایشیاء میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے والی سب سے کم عمر پاکستانی خاتون ٹینس کھلاڑی ہیں۔ 11 سال کی عمر میں، اس نے قومی خواتین کپ میں پہلا انعام جیتا۔ حارث خان دنیا کے سب سے کم عمر اسمارٹ فون ایپ ڈویلپر ہیں۔ ایدھی صاحب جیسی مثال قائم کر گئے لگتا ہے کہ کبھی کبھی میرے قائد اعظم کی آنکھیں چمکتی ہوں گی-