سیلاب ہر سال ملک میں آتا ہے، اس پر اربوں روپے کے فنڈ صَرف کیے جاتے ہیں اور اس کے نقصانات کا باریک بینی سے تخمینہ لگایا جائے تو اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ ریلیف آپریشن پر آنے والے اخراجات سے کم بجٹ میں ڈیم کی تعمیر ممکن ہے، ہم سیلاب اور اْس کی تباہ کاریوں کو تاریخ کا حصہ سمجھ کر بھول جاتے ہیں۔
اگر چہ قدرتی آفات سے بچا تو نہیں جا سکتا‘ لیکن بروقت منصوبہ بندی اور حکمت عملی سے انسانی جانوں کا ضیاع کم کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان میں طوفانی بارشوں اور پھر اس کے بعد سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہونے والے سیکڑوں خاندان مشکلات سے دوچارہو چکے ہیں، کئی شہروں میں نکاسی آب نہ ہونے کی وجہ سے سڑکیں تالاب کا منظر پیش کر رہی، پانی گھروں سے اندر جا رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جب بلوچستان میں لوگ اور گھر ڈوب رہے تھے تو ان کو بچانے کے لیے کوئی بروقت نہیں پہنچ سکا، نہ سرکاری اہلکار، نہ ہیلی کاپٹر اور کشتیاں، نہ کوئی این جی او اور نہ کوئی بڑا نام۔ فلاحی ادارے۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) بلوچستان کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق یکم جون سے اب تک 201 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، جبکہ اموات بولان، کوئٹہ، ژوب، دکی، خضدار کوہلو، کیچ، مستونگ، ہرنائی، قلعہ سیف اللہ موسیٰ خیل اورسبی میں ہوئی ہیں۔ بارشوں کے دوران حادثات کا شکار ہوکر81 افراد زخمی ہوئے، جن میں 49 مرد 12 خواتین اور 20 بچے شامل ہیں۔ بلوچستان میں مجموعی طور پر اب تک 21 ہزار 542 مکانات منہدم اور جزوی نقصان کا شکار ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ بارشوں میں 690 کلو میٹر پر مشتمل مختلف 6 شاہراہیں بھی شدید متاثر ہوئی، جبکہ مختلف مقامات پر 18 رابطہ پل ٹوٹ چکے ہیں۔ بارشوں اور سیلابی صورتحال سے 1 لاکھ 7 ہزار 377 مال مویشی بھی ہلاک ہوگئے ہیں ساتھ ہی1 لاکھ 8 ہزار 461 ایکڑ زمین پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں ہیں۔ سولر پلیٹس، ٹیوب ویلز اور بورنگ کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
سلام ہے عساکر پاکستان پر جو جان جوکھم میں ڈال کر ہر آفت میں ریلیف اور ریسکیو کا کام کرتے ہیں۔ بلوچستان میں ہونے والی تباہی میں ایک غمناک منظر اس وقت سامنے آیا جب امدادی کارروائیوں کی نگرانی کرتے ہوئے کورکمانڈر بلوچستان لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کا ہیلی کاپٹر لاپتا ہوگیا اور آخر کار ہیلی کاپٹر کے حادثے کا شکار ہونے کی تصدیق ہوگئی۔ یوں پاک فوج کے چھ اعلیٰ افسرسیلاب زدگان کی مدد اور فرائض کی بجا آوری میں شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئے اس طرح بلوچستان کو ڈوبنے سے بچانے میں ہمارے جانبازوں کی بڑی قربانی بھی شامل ہوگئی۔ اگرچہ ملک کے دوسرے علاقوں میں بارشوں کی تباہ کاریاں جاری ہیں مگر نقصان کا گراف بلوچستان کی نسبت کچھ کم ہے۔
بلوچستان کی ایک دلدوز تصویر نے ترکی کے ساحل پر پڑے شامی بچے ایلان کی یاد تازہ کی ہے جس میں ایک بچے کی لاش کیچڑ میں لت پت پڑی ہے۔ ایک اور تصویر میں بوڑھا شخص اپنے باقی اہل خانہ کے ساتھ کشتی میں بیٹھا چلا رہا ہے۔ یہ تصویر ’’بلوچستان ڈوب رہا ہے‘‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ رہی۔ تاہم وائرل ہونے والی ایک دو تصاویر اگر پرانی بھی ہیں تو اس سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی کہ بارشوں نے تباہی مچائی ہے اور بلوچستان سمیت ملک کے مختلف حصوں میں دلدوز واقعات سامنے آئے ہیں۔ موسمی تبدیلی عالمگیر سطح پر ایک مسئلہ ہے مگر پاکستان کے لیے یہ ایک شدید خطرے سے کم نہیں۔
عالمی ماہرین پاکستان میں درجہ حرارت بڑھ جانے کی پیش گوئی کر چکے ہیں۔ درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیر پگھلنے اور سیلاب آنے کے خدشات بھی دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ سیلابوں کے حوالے سے پاکستان کا نمبر آٹھواں ہے۔ کلائمٹ رسک کنٹری پروفائل کے مطابق پاکستان کو دنیا میں سب سے زیادہ آفات کا سامنا ہے اور 191ممالک میں رسک کے حساب سے پاکستان کا نمبر اٹھارہواں ہے۔ ان موسمیاتی تبدیلوں کا ایک نتیجہ قحط اور معاشی تباہی کی صورت میں بھی برآمد ہوسکتا ہے۔ بلوچستان کے لوگ پہلے ہی پسماندگی اور وسائل کی کمی کے باعث احساس محرومی کا شکار ہیں، اس مشکل وقت میں تمام پاکستانیوں خاص طور پر وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان حکومت کی سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے ہر ممکن مدد کرے اور دور افتادہ علاقوں کا رابطہ بڑے شہروں سے ہنگامی بنیادوں پر بحال کیا جائے تاکہ امدادی سرگرمیاں موثر انداز میں بحال ہو سکیں اس کے علاوہ وفاقی حکومت قلعہ عبداللہ میں تین ڈیموں کے بند ٹوٹنے کی وجوہات کا تعین کرنے کے ساتھ ڈیموں کی مرمت کا معیاری کام فوری طور پر شروع کرے تاکہ مستقبل میں اس قسم کے حادثات سے بچا جا سکے اور بارش کے پانی کو بلوچستان کے عوام کے لئے زحمت کی بجائے نعمت بنایا جا سکے۔
ملک میں جاری دہشت گردی، معیشت کی بدحالی اور سیاسی گرما گرمی، احتجاج، جلسے جلوس، لوڈ شیڈنگ، بجلی کے نرخوں میں آئی ایم ایف کی ایماء پر بے جا بوجھ، مختلف ٹیکسز کے ادراک نے پہلے ہی عوام کا جینا دو بھر کردیا ہے ان حالات میں قدرتی آفات کا آنا عوام کیلئے قیامتِ صغرٰی سے کم نہیں ہے۔ دوسری جانب کالاباغ ڈیم کا منصوبہ بھی تاحال کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکا- مختلف سیاسی، لسانی، سماجی علاقائی اختلافات کی زد میں آکر یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہے۔ ملکی معیشت و سالمیت جہاں دیگر ناپید مسائل سے دو چار ہے وہاں سیلاب کی سالانہ بنیادوں پر تباہ کاریاں بھی جاری ہیں گزشتہ سالوں کی طرح اِمسال بھی سیلاب ملک میں تباہی کا پیغام لے کر آیا ہے جس سے زرعی فصلیں اور ملکی معیشت کو شدید دھچکا پہنچا۔ افسوس تو یہ ہے کہ سالانہ بنیاد پر آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کیلئے تاحال کوئی موثر حکمت عملی مرتب نہیں کی جا سکی۔اس کا ذمہ دار کون ہے۔