جذبہ خدمت خلق سے معمور وطن عزیز کے عظیم سپوت لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی، ڈی جی پاکستان کوسٹ گارڈ میجر جنرل امجد، کمانڈر انجینئر 12 کور بریگیڈیئر خالد، پائلٹ میجر سعید، کوپائلٹ میجر طلحہ اور کریو چیف نائیک مدثر شہید کی بہادری اور شجاعت کوپوری قوم سلام پیش کرتی ہے، جنہوں نے اپنی جانیں بلوچستان میں سیلاب متاثرین کیلئے وار دیں اور انسانی خدمت کی روشن مثال قائم کر دی ہے۔ بلاشبہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر ملک اور قوم کی خدمت کرنے والے قوم کے حقیقی ہیرو ہیں۔ کیپٹن محمد سرور شہید، میجر طفیل محمد شہید، میجر راجہ عزیز بھٹی شہید، میجر محمد اکرم شہید، پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید، میجر شبیر شریف شہید، جوان سوار محمد حسین شہید، لانس نائیک محمد محفوظ شہید، کیپٹن کرنل شیر خان شہید، حوالدار لالک جان شہیدجیسے جوانمردوں سے لیکر اب تک پاک فوج کے جوان شجاعت و بہادری کی ایسی داستانیں رقم کر رہے ہیں کہ جس پر اس پاک دھرتی کو اپنے سپوتوں پر فخر ہے کہ اتنی قربانیاں دینے کے باوجود افواجِ پاکستان کا حوصلہ پست نہیں ہوا۔
اس سبز ہلالی پرچم کی سربلندی اور پاک دھرتی کی حفاظت کے لئے ہمارے جوانوں اور آفیسرز نے اپنا خون بہانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ شہیدوں کی یہ قربانیاں پاک فوج کے جذبے کو کمزور نہیں پڑنے دیں گی۔ ہر شہید ہونے والا فوجی اپنے ساتھیوں کو یہ پیغام دیتا جاتا ہے کہ ابھی کام ختم نہیں ہوا۔ ابھی قربانیوں کا یہ سفر جاری ہے۔ اور شہیدوں کا خون ہم سب سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ ہم انہیں اور ان کی ان قربانیوں کو کبھی فراموش نہ کریں جو انہوں نے مادر وطن کے لئے دی ہیں۔ ہمارے جانباز فوجی ان 313کے وارث ہیں جنہوں نے ساڑھے چودہ سو سال قبل اپنے سے کئی گنا بڑے لشکروں کو شکستِ فاش دی۔ یہ خالد بن ولید، طارق بن زیاد، سلطان محمود غزنوی، صلاح الدین ایوبی، سلطان ٹیپواور محمد بن قاسم کے وارث ہیں۔ 1965 ء کا معرکے کی تاریخ شاہد ہے کہ جب طاقت میں اپنے سے کئی گناپر غالب آئے۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اْترسکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
پاک فوج کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کی بہترین ترین فوج سمجھی جاتی ہے۔ ان کو یہ اعزاز صرف اور صرف ان کے اس جذبے کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔ جسے جذبہ شہادت کہتے ہیں۔ اس فوج کا ہر سپاہی اپنے دل میں یہ آرزو رکھتا ہے کہ وہ اپنے مادر
وطن پر اپنے خون کا آخری قطرہ بھی نچھاور کر کے اپنی زندگی کو حیات جاوداں میں تبدیل کر دے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امن ہو یا حالت جنگ ہماری پاک فوج کے بہادر سپوت پاک وطن کی آزادی، سا لمیت کے تحفظ کیلئے برسر پیکار ہے، اور پاکستان کو اندرونی و بیرونی دشمنوں سے بچانے کیلئے اپنا خون بہانے سے گریز نہیں کرتی۔ خیبر، بلو چستان سے لیکر سندھ کے لق و دق صحرا، سیاچن کے برف سے ڈھکے گلیشئرز اور سرحدوں پر دشمنوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ آپریشن ضرب عضب، اپریشن راہ نجات سمیت کئی امن بحالی کے آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑی۔ بلکہ قیامت خیز زلزلہ ہو، تباہ کن سیلاب یا کووڈ وبا، ہماری افواج نے ہمیشہ ہراول دستے کے طور پرقوم کو ان قدرتی آفات و مصائب سے محفوظ رکھنے میں بھی ہراول دستے کا کردار نبھایا ہے۔ وطن عزیز اس وقت بھی سیلاب جیسی آفت سے نبرد آزما ہے جس کی زد میں آکر بلوچستان ڈوب رہا ہے اور کراچی جیسا بڑا شہر بھی اس سے محفوظ نہیں رہا۔ آزمائش کی اس گھڑی میں بھی افواج پاکستان قوم کے ساتھ کھڑی ہے اور اپنی درخشندہ روایات پر عمل کرتے ہوئے جانیں نچھاور کر رہی ہیں۔
حالیہ ہیلی کاپٹر سانحہ اس کی ایک روشن مثال ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں ناقابل بیان ہیں۔ کئی بستیاں برباد ہوگئیں۔ سیکڑوں انسانی جانیں لقمہ اجل بن گئیں، مویشی سیلابی ریلوں کی نذر ہوگئے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈی ایم اے کے مطابق 31 جولائی تک ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 136 تھی جن میں 56 مرد ، 33 خواتین اور 47 بچے شامل تھے۔ ساڑھے 13 ہزار مکانات متاثر ہوئے ہیں جبکہ بجلی کے 140 کھمبے گر چکے ہیں۔ کوئٹہ میں انگوروں کے باغات تباہ ہو گئے، شمال میں سب سے زیادہ متاثرہ ضلع قلعہ سیف اللّٰہ کے دور افتادہ علاقے اور بلوچستان کے بلند ترین مقام کان مہتر زئی میں نظامِ زندگی مفلوج ہو گیا۔ بہت سارے لوگ سیلابی ریلوں میں بہہ گئے، ہرے بھرے باغات، فصلیں، پختہ سڑکیں اور قدرتی چشموں کے بجائے اب چاروں طرف صرف سیلابی ریلوں کے آثار دیکھائی دے رہے ہیں۔
مسلح افواج کے جوان ہمیشہ کی طرح صوبہ میں سیلاب میں گھرے افراد کو نکالنے کے لیے مقامی انتظامیہ کی مدد کر رہی ہے۔ متاثرہ علاقوں میں پاک آرمی اور فضائیہ کا ریلیف آپریشن جاری ہے۔ فوج نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں میڈیکل کیمپ قائم کیے ہیں، فوجی طبی امداد فراہم کرنے اور مواصلاتی ڈھانچے کو کھولنے کے علاوہ ریسکیو، امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سیلاب متاثرین میں راشن اور پکا ہوا کھانا تقسیم کیا گیا۔ گندکھا میں فیلڈ میڈیکل کیمپ میں مختلف مریضوں کا علاج کیا گیا۔ چمن میں بارش نہیں ہوئی۔ باب دوستی مکمل طور پر فعال ہے۔ نوشکی پھنسے ہوئے لوگوں کے لیے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ 3 مقامات پر تباہ ہونے والے این-40 کی مرمت کر کے ٹریفک بحال کر دی گئی ہے۔ بلوچستان کے کل 29 اضلاع اس وقت سیلاب سے متاثرہ ہیں۔ سیلاب میں پھنسے ہوئے لوگوں کو فوجی ہیلی کاپٹرز کی مدد سے نکالا گیا، ساتھ ہی خوراک اور ادویات سمیت دیگر امدادی سامان بھی مہیا کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ پاک فوج کی جرات مندانہ قیادت کی بدولت ہی پاکستان تمام بڑے سانحات سے بخوبی نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاک آرمی نے ملک میں سیلاب کے نتیجے میں کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک جامع تنظیمی سیٹ اپ تیار کیا ہواہے۔
سیلاب سے بچاؤ کے تمام کاموں کا معائنہ کور ہیڈ کوارٹر کے ذریعے کیا جاتا ہے اور متعلقہ سول انتظامیہ کے ساتھ مل کر ہنگامی منصوبے بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ کمانڈرز کور انجینئرز کی طرف سے سول حکام کے ساتھ ان کی ذمہ داری کے علاقے میں ضروری رابطہ، کوآرڈینیشن کیا جاتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ سیلاب کے موسم کے آغاز سے پہلے متعلقہ کارروائیاں مکمل ہیں۔ اس میں کوئی شائبہ تک نہیں کہ پاک فوج کے جوانوں نے سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اندرون ملک آنے والی قدرتی آفات میں بھی عوام کی امداد و بحالی کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیتے ہوئے لازوال قربانیاں پیش کیں جو قابل تحسین ہیں ۔