بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں آرمی کا ہیلی کاپٹرجوعلاقے میں سیلاب زدگان کی مدد کررہا تھا خراب موسم کے باعث گرکر تباہ ہوگیا، جس کے نتیجے میں لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی سمیت 6 افسران جام شہادت نوش کرگئے(اناللہ واناعلیہ راجعون)تاریخ میں لکھا جائے گا کہ جب مفاد پرست سیاست دانوں کو اپنی کرسی کی پڑی ہوئی تھی جس کے حصول کے لیے وہ افواج پا ک کے کردار پر انگلیاں اٹھا رہے تھے عوام کے اندر فوج کے کردار کو مشکوک بنانے میں سرگرم عمل تھے اس وقت یہ عظیم المرتبت مائوں کے لختائے جگر یہ پاک فوج کے افسران اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر سیلاب زدگان کی مدد کررہے تھے۔ پرآسائش کمروں میں بیٹھ کر افواج پاک پردشنام طرازیاں کرنا، فوج کے بجٹ پر، اپنے بھونڈے تجزیے پیش کرنا بہت آسان کام ہے۔
یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے، غدار فوج جیسے الفاظ کے ٹرینڈ چلانے والوں سے ایک سوال ہے کہ تمہارے سیاسی طاغوتوں نے 75سالوں سے وطن عزیز کو کیا دیا ہے؟ ماسوائے لوٹنے کے یہ افواج پاک ہی ہے جس کی بدولت آج یہ وطن عزیز پورے قد سے دنیا میں نہ صرف کھڑا ہے بلکہ دشمن پر دھاگ بھی بیٹھائے ہوئے ہیں۔ ان سے پوچھنا ہے جو ایک بریانی کے ڈبے پر اپنا ایمان تک بیچ دیتے ہیں کہ تمہارے سیاسی خدائوں نے کبھی اس ملک کی خاطر اپنی یا اپنے بچوں کی قربانیاں دی ہیں جو لوگ ’’کرسی‘‘ کے حصول کے لیے اپنے محسنوں کو غدار کا لقب دیدیں ان سے اچھائی اور خیر کی تواقع رکھنا بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے ۔یہ’’ اللہ کے بندے‘‘ ہی ہیں جو بارشوں، سیلابوں، زلزلوں، اور وبائوں میں اپنے جان کی پرواہ کیے بغیر ہماری جا نوں کو بچانے کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں جو ملک کی حفاظت کے لیے ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر اپنی جانوں کے نذرانے دیکر اس وطن عزیز کی سالمیت پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ شہید لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کے الفاظ جو وہ ایک کانفرنس میں کشمیر کے حوالے سے بول رہے تھے ’’کہ وہ وقت دور نہیں جب کشمیر آزاد ہوگا لوگوں کو انکا حق ملے گا یہ ہمارا قوم کا قرض ہے جس کو ہم نے واپس لینا ہے انشاء اللہ آج بھی کل بھی سو سال بھی ہزار سال بھی ہمیں محنت کرنی پڑی تو ہم کرینگے‘‘ اللہ کی قسم یہ خالی الفاظ نہیں تھے بلکہ حقیقی جذبات تھے جو ان کے چہرے سے عیاں ہورہے تھے۔
سوچ رہا ہوں کہ شہدا ء کے والدین، بیوی بچوں کو کیا علم تھا کہ اب کے ملے پھر حشر میں ملیں گے، میں خاص طور پر ان چھوٹے بچوں کا سوچ رہا ہوں کہ جو رات بابا کی کال کا انتظار کررہے ہونگے کہ انکے بابا انکو ہر روز اسی وقت کال کرتے تھے۔ ان والدین، بہن، بھائیوں، بیوی بچوں کو کیا علم تھا کہ ان کے بیٹے انکے بھائی انکے شوہر اور ان کے بابا ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کو بہت زیادہ محبوب تھے تبھی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی جنت کا مہمان بنالیا یہ اللہ کے شیر یہ مجاہد قومی فریضہ کی ادائیگی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے قوم کو حیات بخش گئے ہیں اللہ تعالیٰ ان شہدا کی قربانیوں کو قبول فرمائے آمین ۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہدین اور غازیوں کا مرتبہ کتنا بلند وبالا اور کس قدر عظمت والا ہے اس کے بارے آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان مردانِ حق کی مدح وثناء کا خطبہ ارشاد فرمایا ہے مگر سورۃ (العدیت30پ)میں اللہ تعالیٰ نے مجاہدین اور غازیوں کے گھوڑوں کی رفتار، سموں اور انکی اداؤؤں کی قسم یاد فرماکر انکی عزت وعظمت کا اظہار فرمایا: ترجمہ’’قسم انکی جودوڑتے ہیں سینے سے آواز نکلتی ہوئی پھر پتھروں سے آگ نکالتے ہیں سم مار کر پھر صبح ہوتے تاراج کرتے ہیں پھر اس وقت غبار اڑاتے ہیں پھر دشمن کے بیچ لشکر میں جاتے ہیں بے شک آدمی اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔ اس گھوڑوں سے مراد مفسرین کا اجماع ہے کہ مجاہدین اور غازیوں کے گھوڑے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دربار میں اس قدر محبوب و محترم ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان گھوڑوں بلکہ ان کی ادائوں، سموں کی قسم کھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اور جواللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں۔
حضرت ابو ہریر سے روایت ہے کہ میں نے رسولؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون اسکے راہ میں جہاد کرنے والا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی دن کو روزے رکھتا ہے اور رات کو نماز میں کھڑا رہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے ذمہ لیا ہے کہ وہ انہیں وفات دے گا توسیدھا جنت میں لے جائے گا، ورنہ اجر وثواب دیکر اس کے ساتھ مال غنیمت بھی دیکر سلامتی کے ساتھ گھر لوٹا دے گا۔(صحیح بخاری2787) تاریخ ایسے لوگوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی جنہوں نے اپنی تاریخ آپ بنائی ہو افواج پاک کے شہداپاکستان کی تاریخ کے وہ درخشاں ستارے ہیں جن کی قربانیوں کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
افواج پاکستان دراصل ’’فوج الٰہی ‘‘ہے یہ حضرت خالدبن ولید کی اولاد، محمد بن قاسم کے ہمرکاب، طارق بن زیادؒ کی للکار اور سلطان محمد فاتح کی یلغاز ہے۔ افواج پاک کی سربلندی اسلام اور دفاع وطن کے لیے لازوال قربانیاں اور خدمات قابل ستائش وتعریف ہیں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ ان کی قربانیوں کی داستانیں بہت طویل ہیں آج وطن عزیز کا چپہ چپہ انکے مقدس لہو کا مقروض ہے۔ آخر میں ان مائوں، سہاگنوں اور بچوں کو سلام پیش کرتا ہوں جو اس مقدس سرزمین پر اپنے بیٹوں،شوہروں اور اپنے بابا کو قربان کردیتے ہیں یہ وہی شیر ہیں جس کی دھاڑ جس کی ہیبت سے دشمنوں کے کلیجے منہ کو آجاتے ہیں۔ دشمنوں کی صفوں میں ہلچل برپاہوجاتی ہے جس کے انداز تخاطب سے عالم کفر لرزتا ہواور اپنوں کے لیے ابریشم ہوتے ہیں۔ بے شک ’’اے پتر ہٹاں تے نئیں وِکدے‘‘