دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھا کرہ بیاباں
ایک طرف شاعر کی یہ دل چھوتی بات اور دوسری طرف خالق کائنات کا واضح پیغام و ما خلقت الجن ولانس الا لیعبدون (میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا )۔
ذہن تھا کہ الجھ کے ہی رہ گیا، لیکن یہ شاعر کیا بول رہا ہے، افففف۔اب ایسی بات بھی نہیں ہے کہ یہ شاعر اللہ کا باغی ہے یا ملحد ہے، مگر بات ایسی کر رہا ہے جو دل پہ ایسی چوٹ کر رہی ہے کہ نہ جٹھلایا جا سکتا ہے کہ ہاں بھئی تمہاری شاعری کھوٹی ہے اور نہ ہی آیت کو مدنظر رکھ کے آنکھیں بند کر کے یوں بات مانی جا سکتی ہے۔
ت،ت،تو کیا درست۔ جستجو نے آخر جب علم کی گہرائی میں دھکیلا آنکھیں تو پھٹی کی پھٹی رہی ہی مگر حیران و دنگ دماغ نے شاعر کو بھی داد دے ڈالی، کیا وسعت نظری اور عمیق علم ہے پھر دل و دماغ کو بھی حقیقت تسلیم کرنی ہی پڑی کہ حضرت انسان کا مقصد حیات عبادت ہی ہے۔
اب شاید آپ بھی مجھ سے اختلاف کریں مگر ذرا ٹھہریے میری پوری بات تو سن لیں بھئی عبادت صرف نماز روزہ تک محدود نہیں ہے، لفظ عبادت تو وسیع معنی اپنے اندر چھپائے ھوئے ہے اب اسے ہماری کم ظرفی ہی کہہ لیں کہ اسے صرف نماز ،روزے تک ہی محدود رکھا ہم نے، جی ہاں عبادت کا لفظ تو عبد سے نکلا ہے جس کے معنی بندگی اور غلامی کے ہیں۔
اور جب انسان اللہ کی بندگی اور غلامی میں مکمل طور پہ آجاتا ہے تو اسے شریعت کا وہ پورا مفصل قانون اپنانا پڑتا ہے جو حضرت انسان کی رہنمائی کے لیے انبیاء کو دے کر بھیجا ہاں وہی قانون جو حقوق اللہ سے شروع ہو کر حقوق العباد تک جاتا ہے۔
ہاں وہی قانون جس میں اللہ اپنا حق تو معاف کر سکتا ہے مگر بندوں کا حق تب تک معاف نہیں کرتا جب تک بندے خود معاف نہ کر دیں، ہاں وہی قانون جو والدین کو مسکرا کر دیکھنے پر بھی حج مقبول کا ثواب نامہ اعمال میں لکھواتا ہے۔
ہاں وہی قانون جو عورت کو ماں بہن بیٹی اور بیوی کی شکل میں عزت نچھاور کرتا ہے،
ہاں وہی قانون جو مسکینوں یتیموں اور بیواٶں کو پناہ گاہ فراہم کرتا ہے،
ہاں یہ وہی قانون ہے جو عدل و انصاف اور صلہ رحمی پہ زور دیتا ناجائز خون تک بہانے کو نہ صرف ناپسند کرتا بلکہ اس کی سزا بھی مقرر کرتا ہے،
ہاں ہاں یہ وہی قانون ہے مجبوروں لاچاروں اور کمزورں کی دستگیری کرتا ہے یہ وہی قانون ہے جس کے سایے میں مخلوق خدا امن محسوس کرتی ہے،
ہاں بھئ میں یہی کہنا چاہ رہی ہوں سارا درد دل اس قانون میں سمودیا ہے اور یہ قانون اللہ کی عبادت میں، اور یہ عبادت ہی ہے جو ابدی جنت، رضائے الٰہی کی طرف لے جانے والی ہے جو ہماری اس فانی زندگی کا حاصل ہے۔ ان شاللہ ۔