سیاستدانوں کی لڑائی میں غریب پس گئے

پاکستانی سیاستدان اپنی سیاست کی سوچ رہے ہیں یا عوام کی؟ غربت ختم کرنا چاہتے ہیں یا غریب؟ ملک کے اثاثوں میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں یاختم کرنا؟ امیر کو غریب بنانے اور غریب کو دنیا سے رخصت کرنے کے طریقے اپنانا چاہتے ہیں یا اس ملک کو سستے داموں میں فروخت کرنا چاہتے ہیں؟ یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا۔ اس کے باوجود عوام اس امید پر قائم ہیں کہ شاید ان سیاستدانوں میں سے کوئی شخص عوام کے بارے میں سوچے گا تاہم آج ملک کا کوئی سیاستدان امیر یا غریب میں سے کسی کے متعلق نہیں سوچ رہا جبکہ مہنگائی کو مختلف طبقات میں بانٹ دیا جاتا ہے۔

سیاستدان سب طبقات کو ان کے حصے کی مہنگائی سے نواز رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جو لوگ ضرورت کے تحت بجلی استعمال کرتے ہیں وہ بھی پریشان ہیں اور جنہوں نے اپنا خون پسینہ ایک کرکے اپنی زندگی کیلئے آسائشیں حاصل کرنے کی خواہش میں کام کیا، آج وہ بھی پریشان ہیں۔ مہنگائی کے اس دور کو ختم کرنے کیلئے ہمیں آئی ایم ایف اور آئی ایم ایف سے منسلک دیگر لوگوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی جو کسی قسم کی ذمہ داری نہیں لیتے، نہ ملک کی، نہ غریب عوام کی مگر اپنی شرائط اس لیے حکمرانوں سے منواتے ہیں تاکہ ان کی دی ہوئی رقم سود سمیت ان کو واپس مل جائے۔ سن 2010 ء میں پاکستان کے خزانے میں صرف 2 ارب ڈالرز تھے مگر عوام خوشحال تھے۔ بجلی کی قیمت کم تھی۔ گیس دستیاب تھی اور ڈالر 51 روپے میں پاکستان میں دستیاب تھا۔

پاکستان اپنی معیشت کو کامیاب کرنے کیلئے دن رات کوششوں میں مصروف رہا اور 2013 میں پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے ذخائر 7 ارب 65 کروڑ ڈالر تک جا پہنچے مگر دیگر ممالک نے اور دشمنوں نے سازش کرنا شروع کردی، مقصد یہ تھا کہ پاکستان کی معیشت کو ختم کرنے کیلئے پاکستان کو سہانے خواب دکھائے جائیں۔ سازشی ممالک کے مقاصد یہ بھی تھے کہ پاکستانی قوم کو قرضوں تلے دبا دیا جائے اور ایسی شرائط عائد کی جائیں جن سے معیشت تباہ ہو کر رہ جائے جن میں شرحِ سود، بجلی کی قیمتوں اور ٹیکس میں اضافہ، دوائیاں اور تعلیم کو مہنگا کرنا شامل تھا اور ان تمام مقاصد پر زور و شور سے کام شروع کردیا گیا۔

بظاہر 2017 تک ہمارے سیاستدان سازشی عناصر کے شکنجے میں نہیں آئے لیکن اسی سال دیگر ممالک نے ہمیں اس حد تک قرضوں میں ڈبو دیا تھا کہ ان کی سازشوں کے تحت اقدامات اٹھانا پاکستان کی مجبوری بنتی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ 2018 میں جب عمران خان وزیر اعظم بنے تو انہوں نے ملک کی مجبوریاں بتاتے ہوئے دیگر ممالک کی سازشوں کے مطابق اقدامات اٹھائے جس کی وجہ سے جو ڈالر 2013 میں 101روپے کا تھا، اسے 2018 تک 150روپے تک کردیا گیا۔ بجلی کی قیمتوں کو 70فیصد بڑھا کر اور پیٹرول کو 100روپے سے 150 روپے تک لے جانے کے بعد باقی کام دیگر ممالک نے آگے آنے والی شہباز شریف حکومت سے یہ کہہ کر کروانا شروع کیا کہ اگر آپ نے ہماری شرائط نہ مانیں تو یہ ملک برباد ہوجائے گا۔ کہا گیا کہ اگر ہماری شرائط تسلیم نہ کی گئیں تو سری لنکا کی طرح آپ بھی دیوالیہ ہوسکتے ہیں۔ اسی بربادی کے خوف کے باعث سیاستدانوں نے عقل و شعور پسِ پشت ڈال کر پیٹرول کی قیمت 250 روپے لیٹر تک پہنچا دی۔ ساتھ ہی ساتھ بجلی کی قیمتوں میں 170فیصد تک اضافہ بھی کر ڈالا گیا۔

بات یہاں پر رکی نہیں بلکہ سازش کرنے والوں نے یہ ارادہ کر لیا کہ پاکستان جب ڈیفالٹ کی طرف آئے گا تو اس ملک کے اداروں اور جائیدادوں کو سستی قیمتوں پر خرید لیا جائے گا۔ اس لیے انہوں نے ڈالر کا سٹے کا دور شروع کیا جس کی بنیاد انہوں نے 2019 میں پی ٹی آئی دورِ حکومت میں ایسے قوانین بنا کر رکھے جن سے ڈالر کی خریدوفروخت پر کسی قسم کی حکومت کی اجارہ داری یا تسلط نہ رہا۔ اسٹیٹ بینک کو بھی مادر پدر آزاد کردیا گیا۔ اسٹیٹ بینک ڈالر کی اونچی اڑان کے تماشے خاموشی سے دیکھتا رہا اور ان سٹہ بازاروں کے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی گئی۔ ڈالر کی قیمت 150 روپے سے 230روپے تک پہنچ گئی اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ڈالر کو زیادہ سے زیادہ مہنگا کرنے سے باہر کے لوگوں کو بے تحاشہ فائدہ ہوگا جبکہ عام پاکستانی اس کا نقصان ہی اٹھائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو سازش ملک دشمن عناصر نے کی ہے، ان کے مطابق جب پاکستان ڈیفالٹ کرے گا تو پاکستان کی ہر چیز وہ سستے میں خرید سکیں گے۔

آج بھی پانی سر سے نہیں گزرا ہے۔ اگر حکمران شرحِ سود کو کم کردیں، بجلی کی قیمتیں کم کردیں، ٹیکسز میں کمی کرتے ہوئے اپنے اخراجات کم کریں اور ان پراجیکٹس کو روک دیں جن کی وجہ سے قرضوں کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے اور ان پراجیکٹس سے ہمیں معاشی طور پر فوری فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ بہتر یہ ہوگا کہ ایسے پراجیکٹس کی رفتار سست کی جائے۔ اپنی آمدنی کے مطابق ان پراجیکٹس کی رفتار کو برقرار رکھا جائے۔ ورنہ تیز رفتاری کے باعث ایک دن وہ پراجیکٹ تو بن جائیں گے مگر قرضوں کی وجہ سے وہ پراجیکٹ ہمارے نہیں ہوں گے۔ پاکستان کی ترقی صرف اور صرف ایک ہی بنیاد پر ہوسکتی ہے کہ پاکستانی حکمران، چاہے وہ عمران خان ہوں، شہباز شریف یا آصف علی زرداری، آپس میں لڑنا چھوڑ دیں کیونکہ پرانی کہاوت ہے کہ دو بندروں کی لڑائی میں فائدہ ہمیشہ بلی کو پہنچتا ہے۔

کہاوت کے تحت بلی ہماری وہ دشمن ہے جو ہمیں بڑے بڑے خواب دکھا کر قرضوں پر قرض دے رہی ہے اور حکمران بشمول پیپلز پارٹی، ن لیگ اور پی ٹی آئی اپنی حکومت کے لالچ میں آپس میں لڑتے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ہی مضبوط اداروں کے خلاف باتیں کرتے ہیں جس سے ملک کمزور ہوسکتا ہے۔

خدارا اپنے اداروں کی عزت کرنا سیکھئے۔ کیونکہ آج بھی ہمارے اداروں کی وجہ سے ہمارے دشمن ہم سے ڈرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ (آمین)

حصہ
mm
ندیم مولوی ملک کے معروف ماہر معیشت ہیں،وہ ایم ایم سیکورٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹربھی ہیں،ندیم مولوی کراچی اسٹاک ایکسچینج کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔