خیر خواہی کیا ہے! کیا صرف اپنوں اور اپنے چاہنے والوں کے لئے نیک تمنائیں رکھنا ہی خیر خواہی ہے؟ کیا مخلص ہونے کی یہ نشانی ہے کہ مسلمان بہن بھائیوں اور اپنوں کی ہر برائی کو نظر انداز کیا جائے؟ ان کی تمام خواہشات من و عن پورا کرنے کے جتن کیے جائیں، یا کسی کے لئے مادیت کے سراب میں گم ہو جانا خیرخواہی کی علامت ہے۔
اپنی اولاد ہو یا بہن بھائی، بیوی بچے ہوں یا دیگر رشتہ دار۔ ان سے خیر خواہی کا مطلب صرف یہی ہے کیا، کہ ان کی مادی ضروریات کو استطاعت سے بڑھ کر پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ شادی بیاہ، فوتگی، پیدائش کے ضمن میں رائج رسوم رواج کے گرداب میں خود کو الجھا لیا جائے ۔ نہیں۔ اس عمومی سوچ کے بر عکس حقیقت بڑی واضح ہے، جیسا کہ نبی مہرباں صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوے کا جائزہ لینے سے دکھتا ہے،اگر مادی خواہشات کی نہ ختم ہونے والی فہرست کچھ اہم ہوتی تو آپ کی بیویوں کو جائز مطالبات کرنے پر تنبیہہ نہ کی جاتی،فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے آرائش کے لئے لگائے گئے پردوں پر ناگواری کا اظہار نہ کیا جاتا، غلام کی خواہش پر تسبیح فاطمہ کا تحفہ نہ دیا جاتا، مال دولت کی کثرت کے باوجود سادہ طرز زندگی کو پسند نہ کیا جاتا۔ لیکن انھیں تو فکر تھی تو فکر آخرت۔ خیر خواہی مطلب ان کے نزدیک یہی تھا کہ اہل وعیال کو یہ احساس دلا دیا جائے کہ ہر فرد اپنا حساب خود دے گا، پیغبر بھی اپنی اولاد کو نجات نہ دلا سکے گا، جو جتنا نیک تھا وہ تقویٰ میں اتنا ہی آگے تھا، آگ سے بچ جانے اور بچا لینے کی تڑپ اتنی ہی شدید تھی۔
نجانے آج ہم کس کی پیروی میں خیر خواہی کے مفہوم ہی کو بدل چکے ہیں، بلند رتبوں، اچھا کھانے، پہننے، جائدادیں بنانے، بچوں کو مہنگے سے مہنگے اداروں میں تعلیم دلوانے، عیش کوش بنانے، آسائشات کا عادی بنانے کو خیرخواہی سمجھے بیٹھے ہیں۔ قرآن سے سطحی تعلق ہونے کے باعث ہم پیغمبروں کی اپنی اولادوں کو کی جانے والی تنبیہوں، نصیحتوں سے بھی غافل ہیں، یعقوب علیہ السلام کی آخری وقت میں اپنی اولاد کے لئے فکر دیکھیں، مرد مومن بنانے کی تڑپ تھی یا اولاد کے لئے جائدادیں نہ بنا سکنے کی حسرت یا فکر تھی۔ حضرت لقمان کو وحدانیت پرست بنانے کی فکر تھی یا اسٹیٹس کا غم ! بندوں کے حقوق کی ادائیگی، گفتگو میں نرمی، چال میں عاجزی ( کہ یہ چال چلن کی نمائندہ ہوتی ہے) کے بابت درس دیا یا دولتمند بننے کی لگن پیدا کی۔ آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل کے ٹکڑے سیدہ فاطمتہ الزہرا کے لئے کیا پسند کیا ۔ کیا نصیحت کی اور کونسی تڑپ پیدا کی، خوشنودی و رب اور رضائے الٰہی کی یا،قیصرو کسری کی سی دولت اور عیش کوشی کی۔
خیر خواہی حقیقتاً اسی سوچ، فکر، تڑپ اور احساس کا نام ہے جو اپنے پیاروں کو جہنم کا راہی بنتے دیکھ کر کڑھتی ہے اور انہیں صراط مستقیم کا راہی بنانے پر اپنی تمام کوششیں صرف کر دیتی ہے،خود غرض بننے سے روکتی اور درد مندی پیدا کرتی ہے، اپنے پیاروں کے غلط افعال کے لئے تاویلیں پیش کرتی ہے اور نہ ہی حمایت، بلکہ بہترین حکمت عملی سے ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرتی اور انھیں دہرانے سے باز رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔
یاد رکھیے یہی وہ جذبہ ہے جو صحرا میں اسماعیل کی آغوش مادر ہی میں تربیت شروع کروا دیتا ہے۔ نبی مہرباں صلی اللہ علیہ وسلم کو بدر و احد و خندق اور طائف وحنین کی وادیوں میں لے جاتا ہے، یوسف علیہ السلام کو پایہ تخت تک پہنچا دیتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ محبت اور خیر خواہی میں فرق سیکھئے، محبت میں اور نادانی میں اپنے پیاروں کے لئے گناہ کرنا آسان نہ بنائیں بلکہ خیر خواہ بن کر،نرمی اور حکمت سے نیکیوں کی راہ پر چلنے میں ان کے معاون و مددگار بن جائیں،نہ کہ سخت رویوں سے انہیں اپنے سے ہی دور کر دیں، خدارا ! فتنوں کے اس دور میں انہیں اپنے سے دور کرنے والی پالیسی اپنانے سے شدت سے پرہیز کریں، بلکہ اپنے قریب رکھ کر ہر اونچ نیچ سے آگاہ کریں۔ بے شک دنیاوی فلاح بھی وہی ہے جو جنت کی طرف لے جائے، لہٰذا زندگی کو غنیمت جانتے ہوئے اللہ، رسول، مسلمانوں کے۔ اپنے اور اپنی اولاد کے خیر خواہ بن جائیں۔
اللہ تعالیٰ خیر خواہی کے حقیقی مفہوم سے ہمیں روشناس کروائے۔ آمین۔