ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) نے ایک رپورٹ میں کہا کہ 2021 میں بھوک سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھ کر 828 ملین ہو چکی ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 46 ملین زیادہ ہے۔اس حوالے سے ایف اے او اور اقوام متحدہ کی چار دیگر ایجنسیوں نے دنیا میں غذائیت اور خوراک کی رسائی سے متعلق اعداد و شمار مرتب کیے جس کی روشنی میں یہ تازہ ترین نمبر سامنے آیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کووڈ۔19 کی وبائی صورتحال کے بعد سے بھوک سے متاثرہ افراد کی تعداد میں 150 ملین کا اضافہ ہوا ہے۔ اس سے بین الاقوامی برادری کو اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی ایجنڈے کے ”ہدف دوم” تک پہنچنے میں مزید مشکلات کا سامنا ہو گا، جس کا مقصد 2030 تک بھوک اور غذائیت کی قلت کو ختم کرنا ہے۔
یہ بات تشویش ناک ہے کہ 2015 کے بعد مسلسل پانچ سالوں تک بھوک سے متاثرہ افراد کی تعداد میں نسبتاً کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی مگر 2020 میں اچانک پھوٹنے والی وبا کے باعث بھوک سے متاثرہ افراد کا تناسب یک دم بڑھ گیا جو 2021 میں مزید اضافے سے دنیا کی مجموعی آبادی کے 9.8 فیصد تک پہنچ گیا۔یہ تناسب 2019 میں 8 فیصد اور 2020 میں 9.3 فیصد تھا۔اسی طرح صحت مند غذا کے متحمل نہ ہونے والے افراد کی تعداد 112 ملین سے بڑھ کر تقریباً 3.1 بلین ہو چکی ہے،جو وبائی صورتحال کے دوران خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات کی عکاسی کرتا ہے۔یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ 2020 میں آمدنی میں کمی اور بے روزگاری سے متعلق حتمی اعداد و شمار دستیاب ہونے کے بعد مذکورہ بالا تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔
علاوہ ازیں یوکرین میں جاری جنگ ”سپلائی چین” میں خلل ڈال رہی ہے اور اناج، کھاد اور توانائی کی قیمتوں کو بھی مزید متاثر کر رہی ہے جس سے 2022 کی پہلی ششماہی میں خوراک کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اسی دوران، تواتر سے رونما ہونے والے شدید موسمیاتی واقعات سے بھی سپلائی چین متاثر ہوئی ہے جس سے خاص طور پر کم آمدنی والے ممالک پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔انہی عوامل کا شاخسانہ ہے کہ دنیا میں تقریباً 2.3 بلین لوگ یا عالمی آبادی کا 29.3 فیصد 2021 میں معتدل یا شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار تھے، جو کہ وبائی صورتحال سے پہلے کے مقابلے میں 350 ملین زیادہ ہے۔ تقریباً 924 ملین افراد یا عالمی آبادی کا 11.7 فیصد شدید سطح پر غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہا ہے، جس میں ان دو سالوں کے دوران 207 ملین کا اضافہ ہوا ہے۔بچوں کے تناظر میں صورتحال مزید خطرناک ہے جس میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 45 ملین بچے غذائی قلت کی مہلک ترین صورتحال کا شکار ہوئے۔ مجموعی طور پر، پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 149 ملین بچوں میں لازمی غذائی اجزاء کی کمی کی وجہ سے اُن کی نشوونما متاثر ہوئی ہے۔
آگے دیکھتے ہوئی اندازوں کے مطابق تقریباً 670 ملین افراد یا دنیا کی آبادی کا 8 فیصد 2030 میں بھی بھوک کا سامنا کر رہے ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ نے دنیا کو خبردار کرتے ہوئے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ غذائیت سے بھرپور خوراک کی پیداوار اور سپلائی چین کو بحال کرنے کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لائیں تاکہ خوراک کی وافر دستیابی سمیت مہنگائی سے نمٹنے میں مدد مل سکے۔
دوسری جانب دنیا کو درپیش بھوک کے چیلنج سے نمٹنے میں ایسے ممالک کا کردار بھی انتہائی اہم ہے جو غذائی اجناس کی پیداوار اور درآمدات میں بڑا نام رکھتے ہیں، ان میں چین سرفہرست ہے۔چین جیسے بڑے ملک کی جانب سے فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنانے میں ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے اور دیہی صنعتوں کی خوشحالی سے غذائی تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ درحقیقت، چین دنیا کا سب سے بڑا اناج پیدا کرنے والا ملک اور اناج کا تیسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ اس وقت چین اپنی ضروریات کا 95 فیصد سے زائد اناج خود پیدا کرتا ہے۔حالیہ عرصے کے دوران چین نے اپنے اناج کی پیداوار کے نظام کو جدید اور منظم کرتے ہوئے نہ صرف چینی لوگوں کے لیے خوراک کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے، بلکہ دنیا بھر میں غذائی تحفظ کی کوششوں میں بھی نمایاں حصہ ڈالا ہے۔
دنیا کی 09 فیصد سے بھی کم قابل کاشت اراضی کے ساتھ، چین دنیا کا تقریباً ایک چوتھائی اناج پیدا کرتا ہے اور دنیا کی آبادی کے تقریباً پانچویں حصے کو خوراک فراہم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، چین نے عالمی غذائی تحفظ میں بھی ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے۔ وبائی صورتحال کے تناظر میں چین نے افغانستان، سری لنکا، کینیا، یوگنڈا، جمہوریہ کانگو اور لائبیریا سمیت دیگر ممالک کے لیے ہنگامی خوراک کی امداد فراہم کی ہے، جسے عالمی برادری اور متعلقہ ممالک کے عوام کی جانب سے بڑے پیمانے پر سراہاگیا ہے۔چین آج بھی اپنے ماہرین بھیجتے ہوئے مثالی زرعی فارمز کے قیام، کسانوں کی تربیت، فصلوں کی بہتر اقسام کے فروغ اور تکنیکی مدد کی فراہمی سے مختلف ممالک کی زرعی پیداواری صلاحیت اور غذائی تحفظ کی صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد کر رہا ہے۔