قرآن کی سورۃ اٰلِ عمران کی آیت نمبر 112 میں بنی اسرائیل کا ذکر ملتا ہے کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کیا کرتے تھے۔ ان کی اس نافرمانی اور حدود سے نکل نکل جانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر ذلت و رسوائی مسلط کر دی۔
اسی طرح سورۃ البقرہ کی آیات سے بھی ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو بنی اسرائیل کو من و سلویٰ عطا کر کے فکر معاش سے آزاد کر دیا۔ دین کی تبلیغ و ترویج کا حکم دیا۔ لیکن ان بد بختوں نے من و سلویٰ کی نسبت زمین کی پیداوار کو ترجیح دی اور کہا کہ ہمیں دین کی تبلیغ نہیں بلکہ کاشتکاری کرنی ہے۔ ان کی اس بات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تم اعلیٰ کو چھوڑ کر ادنیٰ کی خواہش کرتے ہو؟ پھر اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں وہی عطا کیا جس کی انہیں خواہش تھی۔ پھر یکے بعد دیگرے وہ اپنی خواہشات کے اس قدر غلام ہوتے چلے گئے کہ انسانیت کے بہت نچلے درجے پر گر گئے۔ بالآخر ان پر ہمیشہ کے لئے ذلت و رسوائی مسلط کر دی گئی۔
اگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آج مسلمانوں کی حالت زار ایسی کیوں ہے کہ جیسے ہم پر بھی ذلت و رسوائی مسلط کر دی گئی ہو تو ان آیات کے تناظر میں کچھ نکات پر غور وفکر کیجئے۔
1 • آج کے دور میں بنی اسرائیل کی جگہ امامت کی بھاری ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ ظاہر ہے سورۃ البقرہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں مطلع کرنے کے ساتھ ساتھ بنی اسرائیل کو بھی یہ باور کرا دیا تھا کہ امامت کی بھاری ذمہ داری تمہاری اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے تم سے چھین لی گئی ہے اور اب یہ بھاری ذمہ داری بنی اسرائیل پر نہیں بلکہ بنی اسماعیل پر عائد ہوتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ہم مسلمانوں پر اب یہ زمہ داری ہے۔
2 • کیا آج کے مسلمان نے قرآن وحدیث کو مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے؟ ہرگز نہیں، آٹے میں نمک کے برابر کچھ لوگ ہوں گے جو اس پر پورا اترتے ہوں ورنہ اکثریت تو دینی تعلیم سے کوسوں دور ہیں۔ اور جو لوگ کچھ قرآن و حدیث کا علم رکھتے ہیں ان کا رویہ ایک مثالی مسلم جیسا ہرگز نہیں بلکہ ایسا ہے کہ لوگ دور سے ہی ان کے پاس آنے سے گھبراتے ہیں بلکہ ان سے پناہ مانگتے پھرتے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں سے آراستہ ہیں۔ یہی مثالی مسلم کہلائیں گے۔
3 • کیا آج کا مسلمان ایک عملی مسلمان ہے؟ ہرگز نہیں، آج کے مسلمانوں کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو دین کے پانچ اہم ارکان بھی پورے نہیں کرتے نماز روزہ کے پابند بھی نہیں اور نہ ہی اسلامی روایات کو پسند کرتے ہیں بلکہ جو اسلامی تعلیمات کو خود پر نافذ کرے اس کو بھی دقیانوسی سوچ کا حامل سمجھتے ہیں۔
4 • قرآن میں جس چار بڑی اقوام کے برے اعمال کی وجہ سے بربادی کا ذکر ہے، کیا ان تمام برائیوں سے آج کا مسلمان پاک ہے ؟ ہرگز نہیں، ہمارے معاشرے میں وہ تمام برائیاں بدرجہ اتم موجود ہیں اور بہ یک وقت پائی جاتی ہیں جبکہ اس دور میں عام طور پہ ایک قوم کسی ایک برائی میں مبتلا ہونے کے باعث سزا کی حقدار ٹھہرتی تھی جس پر فوری عذاب نازل ہو جایا کرتا تھا۔
5 • کیا آج تمام مسلمان ایک قوم ایک ملت ہیں؟ ہرگز نہیں، آج تمام مسلمان مختلف گروہوں میں بٹ چکے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے مدمقابل مذہب کے نام پر لڑنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اتفاق، اتحاد، تنظیم اور برکت نام کی کوئی بھی چیز آج کے مسلمانوں میں موجود نہیں ہے۔
6 • کیا آج ہم اسلامی ضابطہ حیات کے مطابق اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں؟ ہرگز نہیں، بلکہ آج ہم اپنی زندگیاں سود سے بھرے دجالی معاشرتی نظام کے تحت گزارنے پر مجبور ہیں جو اسلام دشمن شیطانی ٹولے کا پیدا کردہ غلیظ جمہوری نظام ہے۔ جبکہ اسلام ہمیں سود سے پاک خلافتی نظام معاشرت کا درس دیتا ہے۔ جیسا نظام خلفائے راشدین نے اپنے دور حکومت میں دیا۔
7 • کیا آج مسلم اُمت اتنی آزاد ہے کہ اپنی اور دوسرے مسلمانوں کی بھلائی کے لئے اپنے زورِ بازو پر عملی کام کر پائے؟ ہرگز نہیں، آج مسلمان ایک اُمت کے بجائے مختلف ملکوں کی شکل میں اپنی اپنی حدود میں قید ہیں شیطان کے بنائے قوانین کے تحت ہر ملک اپنی پالیسی کا پابند ہے کوئی دوسرا ملک براہ راست مداخلت نہیں کر سکتا۔ تمام دنیا کی واحد عدالت بنا دی گئی ہے جس پر تمام شیطانی ٹولے قابض ہیں اور وہاں مسلمانوں کی آواز اور چیخ و پکار کسی کو سنائی نہیں دیتی مسلمانوں کا اپنا بھی ایک پلیٹ فارم “او آئی سی” کی صورت میں موجود ہے جس میں کبھی کبھار تمام مسلم ممالک اکٹھے تو ہو جاتے ہیں لیکن دجالی طاقت کے حکم کے بغیر کوئی پتہ بھی نہیں ہلا سکتا اس لیے مسلمان خود اپنے لئے کچھ کر سکتے ہیں نہ دوسرے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے ہی کچھ کرنے کے مجاز ہیں۔
8 • کیا جس مقصد کے لئے ہم دنیا میں بھیجے گئے اس مقصد میں ہم کامیاب ہو چکے؟ دنیا میں آنے کا مقصد ہے دنیا کی امامت کرنا امامت کا مطلب ہے الله تعالیٰ کا بھیجا ہوا نائب جو اللہ کی زمین پر اللہ کے بندوں کو مکمل انصاف دلانے کے لیے الله کا قانون نافذ کرے تاکہ خود اپنے اور دوسروں کے ساتھ بھی پورا پورا انصاف والا معاملہ کرے۔ لیکن یہاں حال یہ ہے کہ آج ہر مسلمان خود بھی آزاد نہیں وہ کسی نہ کسی کا غلام ہے۔ جب تک غلامی سے نجات نہیں ملے گی دنیا پر اللہ کے دین کا غلبہ ہونا ناممکنات میں سے ہے۔
المیہ صرف یہ نہیں ہے کہ آج ہم دجال کے شیطانی جال میں جکڑے ہوئے نام کے مسلمان ہیں بلکہ المیہ یہ بھی ہے کہ اکثریت کو اپنی اس حالتِ زار کا احساس ہی نہیں وہ جانتے ہی نہیں کہ کتنے اعلیٰ مشن پر بھیجے گئے تھے اور کتنی ادنیٰ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کھانا پینا بچے پیدا کرنا اور پھر ان کے رزق کے لئے سارا دن خوار ہونا یہ تو جانور بھی کرتے ہیں ہمیں اپنے گریبان میں خود جھانکنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں اب خواب غفلت سے بیدار ہونے کی ضرورت ہے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے مسلسل سرزد ہوتے گناہوں کی شکل میں الله کی نافرمانی کی پاداش میں ہماری پکڑ ہو جائے اور ہمیں توبہ کرنے کا موقع بھی نہ ملے۔
اب بھی وقت ہے ہمیں ہر وہ عمل کرنا چاہئے جو ہمیں اپنے مقاصد کے قریب تر کردے ہمیں دنیاوی اور دینی علم کو مسلمانوں میں عام کرنا ہوگا۔ ہمیں عام فرد سے شروع کر کے ملک کے تمام اداروں تک اپنے معاشرے کو سود سمیت ہر لعنت سے آزاد کرنا ہوگا۔ بے حیائی، مخلوط تعلیمی ادارے، مخلوط محفلیں، رقص و موسیقی، بےحیاء میڈیا ان سب خرافات سے نجات دلانی ہوگی تاکہ ہم اپنی نسل کو برباد ہونے سے بچا سکیں اگر حکومتی سطح پر کام کیا جائے تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہمیں چاہئے کہ ہم اس راہ میں اپنی ساری قوتیں لگا دیں اور اپنے معاشرے کو ایک مکمل پرامن خوشحال اسلامی معاشرہ بنا کر ہی دم لیں تاکہ ہم اپنے آپ کو ایک سچے مسلمان کی عملی شکل دنیا کے سامنے اس طرح پیش کر سکیں کہ وہ توہین رسالت صلی الله علیہ وسلم تو کیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے کی بھی کبھی ہمت نہ کر پائیں اور ہم الله تعالیٰ کے آگے سرخرو ہو جائیں۔
یہ سب تب ہی ممکن ہے جب ہم قرآن کے بتائے گئے راستے پر چلتے ہوئے ہر اس چیز کو چھوڑ دیں جو رب کو نا پسند ہے اور ہر اس حکم کو بجا لائیں جو قرآن کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے قرآن و سنت کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے آگے بڑھتے جائیں اور ان لوگوں کا ساتھ دیں جو اللہ کے دین کو اللہ کی سرزمین پر نافذ کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ اگر ہم سب مل کر کوشش کریں تو وہ دن دور نہیں جب اسلامی نظام نافذ ہوگا اور میرا وطن قرآن کے سائے میں ترقی کی منزلیں عبور کرتا چلا جائے گا۔ ان شاءاللہ
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا