اسلامو فوبیا مرض غالباً عالمی سطح کی ایک متعدی بیماری بن چکا ہے جو آئے دن دنیا کے کونے کونے سے اسلام مخالف سازشیں رچی جاتی ہیں اور کسی بھی طرح اسلام کو بدنام کرنے کی منظم کوشش بھی کی جاتی ہے۔ بالخصوص وہ ممالک جہاں اقلیت میں مسلمان پائے جاتے ہیں ان ممالک میں نہ صرف اسلام کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے، کبھی قرآن مجید سے گستاخی کی جاتی ہے تو کبھی شانِ اقدس رسول ﷺ میں یا کبھی مسلمانوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔
بلاشبہ امریکہ سے بھارت تک اسلاموفوبیا کا زہر تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ اسلاموفوبیا ایک عالمی وباءہے جس کی لپیٹ میں نہ صرف یورپ بلکہ ہندوستان بھی ہے۔ ہندوستان میں چند اسلام مخالف شدت پسند تنظیمیں ہمیشہ سے مسلمانوں کو اور اسلام کو مختلف سازشوں کے تحت ہراساں کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہیں اور اکثریتی طبقہ کو مسلمانوں کے خلاف ورغلانے کا سلسلہ جاری ہے تاکہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہندو اکثریت کو اکٹھا کیا جا سکے۔حال ہی میں بی جے پی ترجمان ملعونہ نوپور شرما اور ملعون نوین جندل کی دیدہ دہنی پر بھارت کے پچیس کروڑ مسلمانوں اور مجموعی طور پر دنیا کی پچیس فی صد آبادی کی محبوب ترین ہستی رحمت اللعالمینﷺ کی شان میں گستاخی کے نتیجے میں فطری طور پر مقامی اور عالمی سطح پر مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے جس کا اظہار بھارت کے طول و عرض اور پوری دنیا میں پرامن احتجاجی مظاہروں کی شکل میں ہورہا ہے۔تاہم بھارت کی فرقہ پرست اور تنگ دل اکثریتی آبادی بی جے پی کے رہنماوں کی اشتعال انگیزی کے خلاف مسلمانوں کے اظہار جذبات پر تحمل و برداشت کا رویہ اپنانے کے بجائے مسلمانوں کے خلاف تشدد پر اتر آئی۔
پورے بھارت میں توہین آمیز ریمارکس کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شریک ہونے والے مسلم رہنماﺅں کے گھروں کو بلڈوزروں سے مسمار کرنے کی مہم شروع کردی گئی ہے۔اتر پردیش اور سہارنپور میں بالخصوص ایسے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں اور مظاہروں کے خلاف کریک ڈاون جاری ہے ۔ بھارتی ریاست مغربی بنگال میں صورت حال انتہائی کشیدہ ہونے کے باعث ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ بھارت میں اسلامو فوبیا کی اس مجنونانہ مہم پر پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی وزرائے خارجہ کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے تنظیم کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طہٰ سے بھارت میں مسلمانوں کی جان، مال، جائیداد، عزت، ثقافت اور مذہبی آزادی کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کیے جانے کی خاطر رابطہ کیا۔ دونوں رہنماﺅں نے بھارت میں اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان سے نمٹنے کیلئے اجتماعی اقدامات پر اتفاق کیا۔
فی الحقیقت مسلم دنیا اس معاملے میں متحد ہوکر مشترکہ حکمت عملی اپنائے تو بھارت کے مسلمانوں کو مکمل تحفظ میسر آسکتا ہے۔ اسلامو فوبیا دو الفاظ کا مرکب ہے اسلام اور فوبیا۔ لفظ فوبیا یونانی اصطلاح ہے۔جس کے انگریزی میں معنی ہیں کسی چیز کے خوف میں مبتلا ہونا، اسلامو فوبیا یعنی اسلام کا خوف پچھلی کچھ دہائیوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کیلئے کچھ مخصوص قسم کی اصطلاحیں وجود میں آئی ہیں۔ انہی میں سے ایک اصطلاح اسلاموفوبیا بھی ہے۔فوبیا یعنی کسی چیز کا ڈر اور خوف۔ اسی سے لفظ اسلاموفوبیا بنا اور یہ نئی اصطلاح شروع ہوئی یہ سیاسی طور پر اسلام کے خوف کو کہتے ہیں یعنی یہ ڈر کہ اسلام پوری دنیا میں چھا جائے گا اور کچھ دنوں بعد اسلامی حکومت ہوگی اسی کا نظام چلے گااور بقول امریکی وزیر خارجہ جان کیری ”دنیا کی تاریخ اسلامی خلافت کی نگرانی میں لکھی جائے گی“۔اسی طرح آکسفورڈ کی ڈکشنری میں بھی ”اسلام کے ایک سیاسی طاقت کے طور پر ابھرنے کا ڈر اور خوف کواسلامو فوبیا کہا گیا۔
تاہم امریکہ کے اندر گیارہ ستمبر 2001ءکے بعد سے اسلاموفوبیا کو نہایت منظم انداز میں عالمی سطح پر پھیلایا گیا۔11 ستمبر 2001ءسے اب تک کے طویل سفر میں امریکی رہنماوں کو یہ انکشاف ہو اکہ ان کی قومی سلامتی کا سب سے بڑا دشمن باہر نہیں بلکہ اندر ہے۔ براک اوبامہ اور جارج ڈبلیو بش کے ساتھ کام کرنے والے سابق سی آئی اے تجزیہ کار کے الفاظ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی رعونت شکریہ کی مستحق ہیں۔ اسلامو فوبیا سے متعلق منظور ہونے والے حالیہ امریکی قانون میں اس خطرے کے اعتراف کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ جو بائیڈن نے صدر بننے کے بعد مشی گن کی رکن کانگریس ایلیسا سلوٹکن کو داخلی تحفظ کے محکمہ کی ایک ذیلی کمیٹی کا صدر بناکر اس مسئلہ کا حل سلجھانے کی ذمہ داری سونپی۔ انہوں یہ اعتراف کیا امریکہ کے لیے غیر ملکی دہشت گرد واحد سب سے بڑاخطرہ نہیں ہے۔ بیرونی دہشت گردی کا مفروضہ پرانا ہوچکا ہے۔
دنیا کے مہذب ترین امریکی معاشرے میں تشدد کے رحجان کا اندازہ اس بات سے کیا جاتا ہے کہ گزشتہ سال میں233 افراد قتل اور618 زخمی ہوئے مگر اس پر کوئی تشویش کا اظہار نہیں کرتا کیونکہ مغرب کے نزدیک اپنے لیے یا اپنوں کی خاطر معیار مختلف ہے اور غیروں کو وہ الگ پیمانے سے ناپتے ہیں۔ وہ خود تو بڑے آرام سے اونٹ نگل جاتے ہیں لیکن دوسروں کی مکھی چھانتے ہیں۔ نائن الیون کے بیس سال بعد امریکی ایوانِ نمائندگان کو دنیا بھر میں پھیلنے والے اسلاموفوبیا کا احساس ریپبلکن قانون ساز لارین بوئیبرٹ کے اس بیان سے ہوا کہ جس میں انہوں نے الہان عمر کو ایک مسلمان دہشت گرد سے تشبیہ دے دی۔ امریکہ میں اسلاموفوبیا کے 500 سے زائد واقعات کا اندراج ہوچکا ہے۔ اس کے سبب لوگ نہ صرف ایک دوسرے کو برا بولتے ہیں بلکہ تشدد کی جانب گامزن ہیں۔ اسلاموفوبیا کی خوفناکی کا اعتراف کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے مسلمانوں کے تئیں پھیلنے والی نفرت کو وبا سے تشبیہ دی ہے جو بڑی تیزی کے ساتھ دنیا بھر میں پھیل رہا ہے۔