مسئلہ محض یہ نہیں کہ ہم اسے قُربِ قیامت کی نشانی کہیں یا اشرافیہ کی ادا۔ سوال یہ بھی ہے کہ یوں اس تیزرفتاری سے ہم تنزلی کی دلدل میں گرتے گئے تو باقی بچے گا کیا؟۔ ربِ ذوالجلال جس کو گواہ کر کے یہ وطن حاصل کیا گیا اسی رب کے احکامات کو پارلیمنٹ کے فلور پہ دھڑلے سے توڑا گیا ہم جیسے ڈرپوک لوگ تو کانپ کر رہ گئے کہ بس آئی قیامت۔ دنیا کو راضی کرنے کی خاطر غیرت و حمیت کے سودے ہوئے ( پھر شاید عملِ قومِ لوط کی راہ ہموار کرنے کے لئے ) ٹرانس جینڈر کی باتیں ہونے لگیں۔ ہمیں لگا بس صور اسرافیل پھونکا جانا باقی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اشرافیہ کی گھٹیا ذہنیت سے ہمیں کراہیت سی محسوس ہونے لگی۔ قوم کی نفسیات عجیب ہے۔ ذاتی دشمنوں کو معاف کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے مگر قومی مجرموں کے لئے دل نرم بڑے پڑ جاتے ہیں۔ پرویز مشرف کے بارے میں اشرافیہ اور کچھ ادارے بھی یک زبان ہیں کہ انہیں وطن واپس آنے دیا جائے انہیں معاف کر دیا جائے۔
راقم کی چند گزارشات ہیں:-
• یہ ملک صرف آپ کا نہیں اس پر 22 کروڑ عوام بھی کچھ حق رکھتے ہیں۔ آپ کی ایسی باتوں سے ان کا دل دکھا ہے۔
• پرویز مشرف صاحب کے انفرادی کردار ، ذاتیات پر کوئی کیچڑ اچھالے ہم بھی مذمت کریں گے۔ مگر جن اعمال کا تعلق قوم و ملک سے ہے ان پر خاموشی یا معاف کر دیا جائے کہنے والے ہمارے نزدیک قوم و ملک کے خیرخواہ نہیں ہیں۔
• پرویز مشرف نے آئین کو توڑا۔
• پرویز مشرف بے نظیر بھٹو قتل کیس میں مفرور ہیں۔
• امریکہ کو افغانستان پہ بمباری کرنے کے لئے اڈے استعمال کرنے کی اجازت دی۔ ان دنوں کے اخبارات کے تراشے اگر کہیں سنبھال رکھے ہوں دیکھئیے ذرا معصوم لال گلابی گالوں والے بچے خون میں لت پت بوڑھے جوان عورتیں اپاہج کیا ان سب کی زندگی کوئی قیمت نہیں رکھتی تھی؟ اور پرویز مشرف صاحب کی زندگی بڑی قیمت رکھتی ہے؟۔
• بلوچستان سے سیکڑوں افراد غائب کرایے گئے ان کا اتہ پتہ آج تک کسی کو نہیں چل سکا۔ کیا یہ جرم قابلِ معافی ہے؟۔
• ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسا قیمتی ہیرا بڑے آرام سے دشمن کے حوالے کر دیا۔
• ملک میں فحاشی بدچلنی کا وہ سیلاب جاری کیا کہ آج اس کے اثرات ہم معاشرے میں بڑے واضح دیکھ رہے ہیں۔
ایک سوال:
کیا مجرم جب بیمار ہو جائے وہ مجرم نہیں رہتا؟ اس کے سارے جرائم خودبخود معاف ہو جاتے ہیں؟۔ اگر ہاں تو کون احمق اس ملک و ملت کے ساتھ وفا نبھائے گا ؟ ہر کوئی ڈالرز کی بھیک بھی وصول کرے گا امریکہ بہادر کو بھی راضی رکھے گا اور عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ سب کی نظروں میں قابلِ رحم بھی ٹھہرے گا۔
رہی بات ملک وملت کی، معاشرے کی تباہی وبربادی کی تو وہ تو ہر ایک باری باری اپنے حصہ کا کردار ادا کر ہی رہا ہے خوب بڑے دھڑلے سے ناؤ کو ڈبونے میں لگے ہیں سب۔ ہاں معاشرے کا چہرہ یعنی کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر ایک دو آوازیں حق کی خاطر اٹھتی ہیں۔ انہیں بھی بڑے دھڑلے سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس بدقسمت قوم اور زخموں سے چور پیارے وطن کے کرتا دھرتاؤں سے بس ایک بات کہنی ہے کہ، آج ہی جائیے ذرا ڈاکٹر عافیہ کی والدہ، بہن اور بچوں سے ملاقات کیجئے اور ان سے بس ایک سوال پوچھئے کہ جب پرویز مشرف صاحب آپ کی بیٹی، بہن، ماں کا سودا کر رہے تھے تب تندرست تھے مگر آج وہ بے چارے بیمار ہیں۔ مانا کہ عام مجرموں کو بیماری کی رعایت نہیں دی جاتی مگر بھئی یہ تو ہمارے خاص آدمی ہیں۔ ملک و قوم کا اثاثہ ہیں تو کیا آپ اجازت دیں گے کہ ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہ کی جائے؟ کیا آپ انہیں معاف کرتے ہیں؟۔