ترجمہ:شادی شدہ عورت اپنے نفس کی اپنے ولی سے زیادہ حق دار ہے اور باکرہ عورت سے اس کے نفس کے بارے میں اس کا باپ اجازت طلب کرے گا اور اس کا خاموش رہنا اس کی طرف سے اجازت ہے۔
بلاشبہ اسلام میں نکاح سے متعلق لڑکی کو حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی اور پسند کے مطابق نکاح کر سکتی ہے- مگر یہاں معاملہ ایک مخصوص کیس کا ہے جس میں لڑکی گھر سے لا پتہ ہو جاتی ہے، اغوا کی رپورٹ درج ہو جاتی ہے اور بعد ازاں دوران تفتیش یہ انکشاف ہوتا ہے کہ لڑکی اپنی مرضی سے گھر سے روانہ ہوئی اور لاہور جا کر نکاح کیا-
عدالت کے فیصلے کے مطابق لڑکی اپنے نکاح سے متعلق فیصلے کا پورا اختیار رکھتی ہے لہذا وہ اپنی مرضی سے اگر والدین کے ساتھ جانا چاہے یا شوہر کے ساتھ جانا چاہے- والدین کے مطابق ان کی شادی کو سترہ برس ہوئے ہیں تو لڑکی سترہ برس کی کیسے ہو سکتی ہے- والد کے دعوے اور نادرہ کے دستاویزات کو مسترد کر دیا گیا- اب یہاں لڑکی واقعتاً قانونی طور پر اس عمر کی ہے کہ اپنے فیصلے کرنے کا اختیار رکھتی ہے اور والدین کے پیش کیے گئے ثبوت غلط ہیں یا لڑکی کے پیش کے گئے دستاویزات درست نہیں-
اس معاملے سے قطعہ نظر، مذہبی طور پر دیکھا جائے تو بہت سی تفصیلات سامنے آتی ہیں- آیا اسلام لڑکی کو اپنی مرضی سے شادی کا اختیار دیتا ہے یا نہیں؟ کیا اسلام میں مرضی کی شادی کو سختی سے منع کیا گیا ہے؟ کیا لڑکی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ناپسندیدگی کے باوجود ایسے شخص سے نکاح کرے جسے اس کے والدین نے پسند کیا ہے؟ کیا والد یا ولی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنی لڑکی سے اس کی مرضی پوچھے؟
ان سب باتوں کا جواب اوپر دی گئی حدیث سے مل جاتا ہے- دین زندگی کے ہر مسئلے پر بحث کرتا ہے اور بہت تفصیل کے ساتھ معاملات زندگی کی باریکیاں سمجھاتا ہے- مقصد زندگی کو آسان بنانا اور دئیے گئے راستے کے مطابق گزارنا ہے- یہ بندہ بشر ہی ہے جو دین میں مشکلات تلاش کرتا ہے اور پھر عام آدمی کو خود کاپیرو کار بنانے کی خاطر مزید کٹھن طریقوں سے دین کو الجھا کر سمجھاتا ہے- نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کم تعلیم یافتہ یا پھر تعلیم سے بالکل ہی نابلد عام ذہن الجھ جاتا ہے-
بہت واضح طور پر سمجھا دیا: اے جوانو! تم میں سے جو شخص گھر بسانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کر لے کیونکہ نکاح سے نظر نہیں بہکتی اور شرم گاہ محفوظ رہتی ہے، اور جو شخص نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ روزے رکھے کیونکہ روزے اس کی شہوت کو کم کر تے ہیں۔ مسلم، الصحیح، کتاب النکاح۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے نکاح کو نصف ایمان قرار دیا ہے- ایک حدیث کے مطابق؛ جس نے شادی کرلی تو اس نے اپنا نصف ایمان بچا لیا۔ تو اب بقیہ نصف (ایمان بچانے) کے لیے اللہ کا تقویٰ اختیار کرے۔ طبرانی۔
دین بہت ہی وضاحت کے ساتھ بندے کو گناہ کے راستے سے بچاتے ہوئے ایک شفاف اور پاکیزہ زندگی کا درس دیتا ہے- مگر آج کے معاشرے میں نکاح کے راستے مخدوش کر دئیے گئے اور زنا کو عام بنانے کی تمام تر کوششیں جاری و ساری ہیں- آج کی ماڈرن سوسائٹی نے طے کر لیا ہے کہ ابھی لڑکے کے عمر ہی کیا جو اس کی شادی کی جائے- ابھی یہ کمانے کے لائق نہیں ہوا- ابھی یہ گھر اور ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل نہیں ہے-
اسی طرح لڑکی ابھی عمر میں بہت چھوٹی ہے- ابھی تو یہ گھریلو ذمہ داریاں پوری نہ کر پائے گی- ابھی سے ننھی سی جان پر اتنے ظلم ڈھا دئیے جائیں، وغیرہ وغیرہ- اور جب وہی ننھی سی جان اپنی ضروریات پوری کرنی کی خاطر گھر سے بھاگنے جیسا قدم اُٹھا لے تو سر شرم سے جھک جاتا ہے- معاشرے کی ماڈرن آنٹیاں نکل آتی ہیں والدین کے خلاف آواز اٹھانے کے لیئے جنہوں نے ایک مظلوم لڑکی کو اس کی مرضی سے شادی کا حق نہ دیا-
کچھ اسی طرح کی پابندیاں عمر رسیدہ لوگوں پر بھی لگا دی جاتی ہیں کہ بزرگو، اب اللہ اللہ کرو!
بابا جی کی عمر دیکھو اور شوق دیکھو
پاؤں قبر میں لٹکے ہیں اور شادی کا شوق چڑھا ہوا ہے-
پوتے پوتیوں والے ہو کچھ تو خیال کرو-
جیسے کہ یہ معاشرہ ہی طے کرے گا کہ کس کی کیا ضروریات ہو سکتی ہیں- نکاح کی عمر ابھی نہیں ہوئی اور اب تو نکاح کی عمر نکل گئی ہے بس تسبیح ہاتھ میں پکڑ لیں- زنا کے لیے راستے ہر طرح سے کھلے ہیں مگر شادی اس کے لیے عمر درکار ہے- نہ کم نہ زیادہ!
اسلام سے زیادہ ماڈرن سوسائٹی کا پہلو کس دین نے اجاگر کیا ہے؟ اسلام سے ذیادہ عورت اور اس کے حقوق، مرد کی ذمہ داریاں، نکاح اور اس سے متعلق مرد و عورت کے حقوق و ذمہ داریاں اور کون کون سے مذاہب میں اتنی تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہیں- ایک بات پر بارہا زور دیا گیا کہ جب تم بالغ ہو جاؤ تو نکاح کرو، لڑکی عمر تک پہنچ جائے تو نکاح کر دو-
بہت سے لبرل یورپ سے متاثر نظر آتے ہیں اور کم عمر شادیوں کے خلاف آواز اٹھاتے نہیں تھکتے- ہسپانیہ(اسپین) میں شادی کی کم از کم عمر چودہ سے بڑھا کر سولہ سال مقرر کی ہے اور یہ قانون 2015 میں نافذ ہوا- یعنی اس سے پہلے کم از کم عمر چودہ؟ کچھ امریکی ریاستیں جہاں آج بھی شادی کی کم از کم عمر قانونی طور پر رائج نہیں یہاں تک کہ شادی کے لیے والدین کی سرپرستی کی بھی ضرورت نہیں، کیلیفورنیا،اوہائیو، مین، میساچوسٹس، مشی گن، مسیسیپی، نیو میکسیکو، اوکلاہوما، رہوڈ آئی لینڈ، واشنگٹن، ویسٹ ورجینیا، اور وومنگ۔ جولائی Rosalind C. Barnett and Caryl Rivers کی ایک رپورٹ کے مطابق 2021 کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ 2000 سے 2018 کے درمیان تقریباً 300,000 بچوں کی – جن کی عمریں 17 سال اور اس سے کم ہیں – کی شادیاں ہوئیں۔
وہ تمام ممالک جہاں سے ماڈرن ازم اور لبرل ازم ہمارے یہاں ادھار لیا جاتا ہے وہاں آج تک بھی اپنے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو یہ سمجھایا نہیں جا سکا کہ میڈیکل سائنس کے مطابق کم عمری کے تعلقات کے کیا نقصانات ہو سکتے ہیں- پندرہ برس سے سترہ برس کی عمر ماں نا صرف اپنے لیے بلکہ اپنے بچے کے لیے بھی مشکلات پیدا کر سکتی ہے- ہائی بلڈ پریشر اور جسمانی پیچیدگیوں کے علاوہ، وقت سے پہلے زچگی اور بچے کا ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور رہ جانے کے خدشات بھی کہیں ذیادہ ہوتے ہیں- ان سب پیچیدگیوں کے باوجود ترقی یافتہ ممالک میں کم عمری میں جسمانی تعلقات کو روکنے کا کوئی طریقہ کار آمد نہیں-
یہاں مقصد کم عمر ی کی شادیوں کو تقویت دینا یا ان کا فروغ نہیں- مقصد اپنے معاشرے کے کچھ ناقص پہلو اجاگر کرنا ہے- خود کو ماڈرن اور لبرل ثابت کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ کسی کی اندھی تقلید کی جائے- لوگ کیا کہیں گے جیسی بات سوچ کر نکاح کا راستہ روکنے کی کوشش کرنا- بچے کو زنا کی طرف مائل کرنے کی بجائے اگر صحیح عمر میں ہی صحیح فیصلے کئیے جائیں تو شاید بہت سی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے- والدین یا سرپرست کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے لڑکے یا لڑکی پر زبردستی اپنی مرضی کریں یا شادی کے لیے مجبور کریں- اگر نکاح کی خواہش ہو تو ایک نظر دیکھ لینے میں بھی کہیں ممانعت نہیں ہے-
جیسے والدین کے لیے اپنی اولاد کی مرضی جاننا ضروری ہے اسی طرح اولاد بھی فرمانبرداری کا ثبوت دے- بجائے کوئی انتہائی قدم اٹھانے کہ والدین کے سامنے اپنی بات ضرور رکھے- مگر ایسا ایک پاکستانی معاشرے میں کسی لڑکی کے لیے ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ اپنی پسند بتانے پر وہ بدکردار قرار دی جاتی ہے- گھر سے نکلنے پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے- تعلیم ختم کرا دی جاتی ہے اور اکثر فوری طور پر اس کی شادی کسی سے بھی صرف اس لیئے کروا دی جاتی ہے کہ کہیں لڑکی ہاتھ سے نہ نکل جائے- حالانکہ بیٹے کی طرح اگر بیٹی کی پسند پر بھی غور کیا جائے تو کوئی برائی نہیں- والدین اور اولاد کے درمیان نسلی دوریاں کم سے کم ہوں تاکہ اولاد گناہ کی خواہش ہونے کے باوجود ماں یا باپ سے دل کی بات کر سکے اور اس کی گناہ کی جانب رغبت کو کا تدارک صحیح راستے سے ہو سکے- نا کہ اتنا خوف بٹھا دیا جائے کہ اولاد والدین کے ڈر سے ہی انتہائی قدم اٹھالے-
اولاد کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ والدین کی مرضی کو فوقیت دے- نکاح جیسی سنت درست طریقے سے پوری کی جائے یہی بہتر ہے- گواہوں کے بغیر نکاح کرنے والی عورتیں بدکار ہیں۔ ترمذی، السنن۔
والدین کی مرضی کے بغیر گھر بار چھوڑ کر بھاگ جانے والی لڑکی چاہے کسی کی منکوحہ کے طور پر ہی ساری زندگی گزارے، معاشرہ اُسے وہ عزت نہیں دیتا جس کی وہ حق دار ہے- اس کے پیچھے رہ جانے والے رشتے سدا کے لیے قصور وار ٹھہرائے جاتے ہیں- والدین سر نہیں اٹھا پاتے، بہنوں کی شادیوں میں مسائل کے پیدا ہو جاتے ہیں اور بہت سی ایسی مثالیں دیکھی گئی ہیں کہ عشق میں اندھی ہو جانے کے باعث ایسی لڑکیاں جو شادی کرنے کے لیے گھر کی دہلیز پار کر گئیں ان کا انجام بہت گھناؤنا ہوا- جو شخص کسی عورت سے محبت کرتا ہے وہ سب سے پہلے عزت کے اصول پر عمل کرتا ہے- دن کی روشنی میں اپنے والدین کے ہمراہ عزت سے ہاتھ نہیں مانگ سکتا تو کیسے ایسا شخص زندگی بھر ایک عورت کی جان، مال اور عزت کا محافظ بن سکتا ہے- جہاں والدین کو اولاد کی مرضی جاننے اور اس کی قدر کرنی چاہیے وہاں اولاد پر بھی لازم ہے کہ والدین کی فرمانبرداری کریں- نکاح کا راستہ جہاں تک ہو سکے آسان بنائیں- فلاح اسی میں ہے۔