’’یار یہ حافظ نعیم کون ہے؟‘‘

’’یار یہ حافظ نعیم کون ہے؟‘‘
’’ نام سے تو کوئی مولوی لگتا ہے، کہیں تم مفتی نعیم کا ذکر تو نہیں کررہے؟‘‘
’’ نہیں یہ مولوی نہیں انجینئر ہیں بھائی۔‘‘
’’ پھر تو میں ایسے کسی انجینئر مولوی کو نہیں جانتا۔‘‘
’’ بڑے افسوس کی بات ہے جو کچھ نہیں کرتے انہیں سب جانتے ہیں اور جو تمہارے لیے آواز بلند کرتے ہیں انہیں تم جانتے تک نہیں۔‘‘
’’ کیا یہ کوئی ایم این اے یا ایم پی اے ہیں ؟‘‘
’’نہیں لیکن پھر بھی یہ ان سب پر بھاری ہیں۔‘‘
’’کیوں کیا یہ زرداری ہیں ۔مطلب پیسے والے ہیں۔‘‘
’’ نہیں ایسا بھی نہیں ہے۔ ‘‘
’’ تو پھر یہ کیسے ہمارے لیے آواز بلند کرسکتے ہیں؟ ‘‘
’’ایک توتم لوگوں کی یادداشت بہت خراب ہے، کل تک جب کے الیکٹرک تمہاری گردن مروڑ رہا تھا تو تمہارے اپنے نمائندے کدھر تھے؟‘‘
’’ اپنوں کو تو ابھی اپنی ہی پڑی ہوئی ہے۔ ‘‘
’’ یہ حافظ نعیم تمہارے لیے نکلا تھاتمہاری آواز بن کر عدالتوں کے چکر کاٹے،نیپرا کی عدالت میں تمہارا کیس لڑا، تمہارے گھر کی روشنی کے لیے اس نے سڑکوں پر دھرنے بھی دیئے ، اسے گرفتار بھی کیا گیا لیکن اس کی آواز کو کوئی دبا نہیں سکا۔‘‘
’’ مجھے یاد آگیا یہ وہی جماعت اسلامی کے امیدوار تو نہیں جنہیں ان کے حلقہ والوں نے ووٹ نہ دے کر بہت بڑی غلطی کی تھی۔‘‘
’’اس کے باوجودکہ اس کے پاس کوئی اختیارات نہیں ،یہ اختیارات کا رونا رونے کے بجائے میدان عمل میں کراچی کے لیے بہت کچھ کررہاہے۔‘‘
’’کے الیکٹرک کو تو واقعی اس نے لگام دے رکھی ہے، عوام کو جہاں کوئی جماعتی ملتا ہے وہ اس کے پاس کے الیکٹرک کا مسئلہ لے کر پہنچ جاتاہے۔‘‘
’’ لیکن ووٹ تم نے پھر بھی ان کو نہیں دینا یہ مجھے پتا ہے۔‘‘
’’بھائی مسئلہ شناخت کا ہے ، انہوں نے ہماری شناخت کے لیے کچھ نہیں کیا۔‘‘
’’ بڑے افسوس کی بات ہے جس کو تم نے ووٹ دیئے تھے وہ تو اب تک کوٹہ سسٹم تک ختم نہیں کرسکے۔کجا یہ کہ وہ تمہاری شناخت کا مسئلہ حل کرتے۔‘‘
’’اب تو ہماری شناخت بھی مشکوک بنائی جارہی ہے۔‘‘
’’یہ تو ہونا ہی تھا، لیکن فکر نہ کرو یہی حافظ نعیم اب تمہاری شناخت کے لیے بھی نکل رہا ہے۔کے الیکٹرک کے بعد اب یہ نادرا والوں کوبھی لگام دے گا، بے شک تم پھر بھی اس کو ووٹ نہ دینا۔‘‘
’’بس ایک بار میرا شناختی کارڈ بنوا دو پھر دیکھو تمہارا ووٹ پکا ہے۔ کتنے دنوں سے لائن میں لگا کر ذلیل و خوار کررہے ہیں اور کہتے ہیں دادا کا شناختی کارڈ لاؤ ۔‘‘
’’اپنی شناخت چاہیے تو پھر پہلے ’اپنوں‘ کی شناخت کرنا سیکھو ۔ورنہ ذلت و خواری ہی ہمارا مقدر بنے گی۔‘‘
’’نہیں ا ب میں سمجھ گیا کہ اپنی شناخت’ اپنوں‘ کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔‘‘
’’چلو پھر اپنی شناخت کے لیے اپنوں کے ساتھ نکلیں!‘‘
*۔۔۔*

حصہ

4 تبصرے

  1. جن کے پاس اختیارات ہیں وہ کچھ کرنے کو تیار نہیں یہ بہت افسوس کی بات ہے عوام نے ان کو ووٹ دیئے اور انہوں نے کیا کیا !!

جواب چھوڑ دیں