ڈھٹائی وہ عنصر ہے کہ انفرادی و قومی کردار میں جہاں بھی یہ سرایت کر جائے تو اس کے اثرات و نتائج بڑے خوفناک ہوتے ہیں۔ اچھے سے اچھا معلم ہو، بہترین تربیتی منصوبہ ہو لیکن اگر طلبہ بدقسمتی سے ڈھیٹ اور ٹس سے مس نہ ہونے والے ہوں( یہ الگ موضوع ہے کہ یہ ڈھٹائی کیسے ان کے اندر پروان چڑھی) تو سارے منصوبے بے کار جائیں گے۔
کچھ یہی حال ہماری قوم کا ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ قوم بہت ڈھیٹ ہوگئی ہے،نہیں بلکہ قوم کے شعور و لا شعور کی تربیت کرنے والے ڈھیٹ ہوچکے ہیں۔ قوم کے شعور و لا شعور کی تربیت کون کرتا ہے فی زمانہ،
۔1 ۔ میڈیا
۔2 ۔ Celebrities
خصوصاً فلم آرٹسٹ، گانے ناچنے والے اور پھر کھلاڑی۔ لوگ لا شعوری طور پر ان کو آئیڈیل بناتے ہیں۔ علاوہ ازیں سیاسی شعبدہ باز ۔(ان کے علاوہ بھی کئی عناصر ہیں جو قوم کی سوچ بنانے اور رخ متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر یہاں تفصیل کا موقع نہیں)۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مذکورہ بالا طبقات کا قبلہ و کعبہ دولت ہے،شہرت ہے اور مادی آسائشوں کا حصول ہے اور بس۔ (واضح رہے کہ راقم فنونِ لطیفہ اور اسپورٹس کی مخالف نہیں مگر اخلاقی ضابطے، اپنی روایات بھی کوئی چیز ہوتی ہے بھئی!)
تپتی ریت، صحرا پر سورج بادشاہ کا راج، پانی کی شدید قلت، بھوک پیاس سے جاں بلب انسان اور حیوان اور اس بستی سے دور امراء عیاشیوں میں بدمست۔ ایسے میں ریگستان کے ان باسیوں کو زندگی کا پیام دینے پہنچتے ہیں وہی جو صحرا کو گلشن کرنے کا عزم رکھتے ہیں، وہی جو زلزلہ زدگان و سیلاب اور کورونا زدگان کے غم کا مداوا بنے ہیں۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ *الخدمت فاؤنڈیشن* کے رضاکار اور پھر ان کے جذبوں کو مہمیز دینے ان کا لیڈر (جو بذاتِ خود عیاشی سے نا آشنا ہے.)ان کے درمیان موجود ہے۔
فراہمیِ آب کے منصوبے ہوں، راشن پیکجز کی تقسیم ہو، سولر سبمرسیبل پمپ کی تنصیب ہو یا نمازِ استسقاء کے روح پرور مناظر ۔ الخدمت کے رضاکاروں کی جانفشانی کے تذکرے ہوں یا ان کے لیڈر کی ٹیڑھی ٹوپی کی آن بان کی کہانی، اس سب کچھ کو ملک کے دوسرے حصوں تک پہنچانا کس کی ذمے داری ہے؟۔ میڈیا کی !
لیکن افسوس صد افسوس یہ میڈیا سیاسی شعبدہ بازوں کی سرگرمیاں، عوامی لیڈروں کے گھٹیا مکالمے تو پوری ڈھٹائی کے ساتھ سارا دن نشر کرتا ہے مگر نہیں دکھائے گا تو ایسی چیزیں نہیں دکھائے گا جس سے خیر اور خدمت کے کاموں کی تشہیر ہوتی ہو۔ کسی celebrity کا کتا مر جائے تو میڈیا تین دن تک سوگ کی کیفیت میں ہوتا ہے۔ مگر اس ڈھٹائی پہ کوئی کتنا ماتم کرے کہ چولستان میں بھوک پیاس سے مرتے بوڑھے، بچے، جوان، عورتیں اور پھر ان کے جانور یہ میڈیا کو نظر نہیں آتے۔
پس اے وہ کہ جس کا خمیر اس مٹی سے اٹھا ہے، جس کو اس دھرتی کے ساتھ جذباتی و روحانی وابستگی ہے اے وہ کہ جو سیاسی شعبدہ بازیوں سے متاثر نہیں بلکہ نظریہ کے علمبردار ہیں، اے وہ کہ جو اس دھرتی پر باران رحمت کا نزول چاہتے ہیں۔ اے وہ کہ جو لھو و لعب میں ڈوبے لوگوں کے Followers نہیں بلکہ محمد عربی کو اپنا آئیڈیل ٹھہراتے ہیں، سب ایک ہو جائیں اور کردار کی شان اور خدمت کے تسلسل کا حصہ بن جائیں۔ اسی تسلسل میں کبھی نہ کبھی ، کہیں نہ کہیں مہر بھی لگانی پڑے گی، تو نئے پرانے شعبدہ بازوں کے لوگو، انتخابی نشانات سے ذرا بچ کے، جی ہاں ! الیکشن کا زمانہ ہو، امانت کی سپردگی کا بہانہ ہو تو آپ کی مہر کا حق دار صرف ایک نشان ہے اور وہ ہے ترازو۔
واضح رہے کہ ریٹنگ کو ہی مطلوب و مقصود ٹھہرانے والا میڈیا آپ کو کبھی بھی ترازو کا تعارف نہیں دے گا۔ باقی سب نشانات کے فضائل آپ کو گنوا دے گا۔ رائے اور فیصلے کا اختیار آپ کو آپ کے خالق نے محدود مدت کے لئے دیا ہے لہٰذا خوب سوچ لیجئے، بار بار سوچئے کہ…
الیکشن کا زمانہ ہو
امانت کی سپردگی کا بہانہ ہو
ڈھٹائی سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو
تو آپ کا واحد انتخاب ترازو ہوگا۔