نوجوانوں کے نام پیغام

پاکستان میں تقریبا 80 فیصد نوجوان طبقہ پایا جاتا ہے۔کسی ملک کے لئے اس کے نوجوان بہت قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ ملک کی ترقی اور تنزلی نوجوان طبقے پر منحصر ہوتی ہے۔ نوجوانوں کے اندر ایسی صلاحیتیں پائی جاتی ہے کہ وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتا ہے اور جوش ولولہ اس کو مزید تسکین دیتا ہے مشہور قول ہے کہ: اگر کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس کے نوجوانوں میں فتنے عام کر دو۔

آج کی نوجوان نسل جس دہانے پر کھڑی ہے سوائے بربادی اور تباہی کے اس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ پوری سوچی سمجھی پلیننگ کے تحت اس نوجوان نسل کو بگاڑنے کا کام یہود و نصاریٰ نے اپنے ذمے لیا ہوا ہے اور بہت حد تک اس کام میں انہیں ترقی مل رہی ہے۔ہر دوسرے روز ایک نیا فتنہ سر اٹھائے کھڑا ہوتا ہے اور جوان نسل بنا سوچے سمجھے اس کو اپنا لیتی ہے اور انکی چالوں کا آسانی سے شکنجہ بن جاتی ہے۔ باطل قوتیں اس فتنے کو اس انداز سے پیش کر رہے ہیں کہ اس میں سب جھوٹے بڑوں کے لیے دلکشی کا سامان ہوتا ہے۔ اس سے بچنا بہت ہمت اور حوصلے کا کام ہے۔

آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ نوجوان طبقہ صحیح غلط کی تفریق کئےفتنوں کے سمندر میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے۔ سب سے بڑا فتنہ اس وقت ہمارے ہاتھوں کی زینت بنا ہوا ہے وہ اسمارٹ فون ہے۔ جس کی وجہ سے کوئی بھی بدی انسان سے صرف ایک انگلی کی دوری پر ہمیشہ اس کے ساتھ ہے۔ اس لئے دنیا ایک global village بن کر رہ گئی ہے۔کوئی چیز اس کی پہنچ سے دور نہیں رہی۔ اگر اس میں آپ صرف کسی کام کے متعلق بھی سرچ کریں تو بھی آپ کی آنکھ کافتنے سے بچنانا ممکن سی بات ہے۔ فحاشی و عریانی کے بے تحاشا ایڈز ہماری اسکرین پر نظر آئیں گے جس سے نگاہ کی حیا درجہ بدرجہ ختم ہوتی جارہی ہے۔ آپ قرآن کی تلاوت بھی سننا چاہے توان ایڈز سے آپ کی جان نہیں چھوٹتی۔ ایک دس سے پندرہ منٹ کی ویڈیو میں تین سے چار بار فضول ایڈ کا آنا ایک تو وقت کا ضیاع اور دوسرا اپنے ایمان کو گھاٹے میں ڈالنا ہے۔

ایک اور فتنہ جو موبائل کے اندر موجود ہے وہ TikTok videos ہیں۔ جس سے ہمارا معاشرہ دن بدن تنزلی کا شکار ہو رہا ہے۔ جبکہ Tik Tockers کا ماننا یہ ہے کہ وہ مشہور ہو رہے ہیں۔ اور اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی ایک ہوس ہے جیسے پتا نہیں کوئی قیمتی خزانہ ہے جو ان کی جوانی میں چار چاند لگا رہی ہے۔ ایک اور نام جو آج کل سماعتوں سے ٹکرا رہا ہے وہ ہے BTS ۔یہ بھی کچھ نوجوانوں کا گروہ ہے جو گانا گاتے اور رقص کرتے ہیں۔ یہ نوجوان ہم جنس پرست ہیں۔ جو اسلام نے حرام کیے ہیں۔ ہمارے معاشرے نے اسے “روح کی غذا” کہا ہے۔گانے سننا اور گانا کوئی گناہ کا کام اب لگتا ہی نہیں ہے۔ کیونکہ ہر چیز میں ہمیں music سنا سنا کر اس کا عادی کر دیا ہے۔جب انسان برائی کا عادی ہو جاتا ہے تو اسے برائی برائی نہیں لگتی اور آج ہمارا یہی المیہ ہے۔ گانے سننے کے بارے میں سخت وعید آئی ہے کہ کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔ لیکن ہم اس سے بے فکر ہیں اور اس کی روک تھام کے لئے کوئی کوشش نہیں کر رہے بلکہ اس کو دن بدن بڑھاوا ہی حاصل ہو رہا ہے۔

جب یہ تمام فتنے ہمارے اندر گردش کر رہے ہیں تو ان کے اثرات بھی ہمارے اوپر نظر آئیں گے۔ کوئی ہلکا سا بھی music بجتا ہے تو ہمارے بچے فوراً ہلنا شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ انھیں مسحور کر رہا ہے۔ پھر پتہ نہیں چلتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ ایک نشے کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ نوجوانوں کے بڑھتے ہوئے مسائل اسی کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی حادثہ پیش آ رہا ہے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔ نوجوان طبقہ بہت مایوسی و لاچاری کا شکار بھی ہو رہا ہے نوجوانوں کے پاس اپنے آپ کو دینے کے لیے وقت نہیں ہے اپنے معاشرے کی کیسےتعمیر کریگا؟۔ نوجوانوں میں پڑھنے لکھنے کا شوق بلکل ختم ہوتا جارہا ہے، اس سے نوجوان طبقہ زنگ آلود ہو رہا ہے، اس طبقہ کو تو ملک کا معمار کہا جاتا ہے۔ اسی طبقہ سے قوموں کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن افسوس آج یہ کس کھائی میں گرنے والے ہیں انہیں خبر ہی نہیں ہے۔

نوجوانوں کے پاس وقت ہی ختم ہو گیا ہے۔ ایک قیمتی سرمایہ جو بہت تیزی سے پگھل رہا ہے صرف موبائل کی نظر ہو رہا ہے۔ نوجوانوں میں کچھ کرنے کا جوش اور جذبہ بھی مدھم پڑ رہا ہے۔ ان میں صحیح اور غلط کی تمیز سرے سے ہی ناپید ہوگئی ہے۔ ایک اور ٹرینڈ سننے میں آیا ہے کہ کزن کی سحری ہے اس کے لیے مجھے باسکٹ تیار کرنی ہے اس میں یہ یہ اور یہ ہوگا یعنی فضول خرچی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ روزے کا مقصد صرف دعوتیں کرنا رہ گیا ہے۔ اصل مقصد کہیں کھو گیا ہے۔ صرف 80 فیصد میں سے میں اگر کہوں کہ 10فیصد ان فتنوں سے بچے ہوئے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ ان آٹے میں نمک کے برابر نوجوانوں کا ایمان اتنا مضبوط ہو گا کہ وہ ان فتنوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر کبھی غلطی سے کوئی غلط کام میں قدم بھی رکھ دیتے ہیں تو پلٹ آتے ہیں اور اپنے رب سے رجوع کرتے ہیں نہ کہ اس پر ڈٹے رہتے ہیں۔

ایسے ہی کچھ لوگوں کی وجہ سے ملک چل رہا ہے ورنہ تو ہمارے ملک میں ہر وہ برائی موجود ہے جو پچھلی تمام قوموں میں پائی جاتی تھی اور ان کی ہلاکتوں کا سبب بنی تھی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعا اور کچھ نیک لوگوں کی بدولت ہی یہ ملک بچا ہوا ہے ورنہ اس کا اللہ کے عذاب سے بچنا مشکل ترین بات ہے۔ محمد بن قاسم بھی ایک نوجوان تھے۔ انہوں نے اس چھوٹی سی عمر میں سندھ فتح کر لیا تھا۔ ایسے ہی بہت سے نوجوانوں کے بارے میں ہم پڑھتے اور سنتے ہیں لیکن ان جیسا بننے کی کوشش نہیں کرتے اور ایکٹرز اور ٹک ٹاکرز کو فالو کرتے ہوئے ہمیں مشکل نہیں ہوتی۔

یہود و نصاریٰ کے معاشرے کا ہی ہم جائزہ لیں تو وہ اپنے بچوں کو بچپن ہی سے ایسی تربیت دیتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر بھی ان فتنوں(اسمارٹ فون کی دنیا سے)بے بہرہ ہوتے ہیں۔ جب کہ ہمارے معاشرے کی کم عقلی یہ ہے کہ ہر چھوٹے سے چھوٹے بچے کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے۔ اب چاہے اسے کتنی ہی دیر دکھا لو وہ بور نہیں ہوگا اور جیسے ہی اس سے فون لے لیا جائے گا وہ فوراً رونا دھونا مچا کر آسمان سر پر اٹھا لے گا۔ مائیں اس چکر میں بچوں کو موبائل دے دیتی ہیں کہ بچے چپ رہیں گے اور ہم اپنے کام آسانی سے نمٹا لیں گے۔

ان سب مسائل کا بس یہی حل ہے کہ ہم اس وقت کو قیمتی جان کر اسے لغویات میں سرف ہونے سے بچا لیں اور ایسی صالح صحبت سے وابستہ رہیں جو ہمیں وقتاً فوقتاً فتنوں سے بچانے میں ہماری مدد کرے۔ اگر تنہائی میں اس قوم کا جائزہ لیا جائے تو شرمساری اور آنکھیں نم ہونے کے سوا کچھ نظر نہ آئے گا ۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہماری نسلوں اور قوموں کی حفاظت فرمائے اور ہمیں حق و باطل کو سمجھنے والا بنائے (آمین)۔