انسان خالق کائنات کا زمین پر خلیفہ ہے۔ اشرف المخلوقات ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ اللہ پاک نے اس کو خوش اخلاق بنایا ہے اس کو گفتار کی جو عظیم صلاحیت دی ہے اس کو بروئے کار لا کر انسان اپنے انتہائی مخالف کو بھی اپنا دوست بنا سکتا ہے۔ اور اسی کا غیر محتاط استعمال کر کے دوست کو دشمن بھی بنا سکتا ہے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں انسان خود ساختہ مصروفیت کی معراج پر ہے ۔ یہاں اس کے پاس دوسروں کے لیے تو دور خود اپنے لیے بھی وقت نہیں ہے انسان اپنے آپ کو جن گھتیوں میں الجھا چکا ہے ان کو سلجھانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ ہمارے معاشرے کا اس وقت یہ عالم ہے کہ انسانوں کے دوسروں کے ساتھ صرف اختلافات ہی نمایاں ہے ۔ کیا دفتر ، کیا دکان ، کیا میاں بیوی ، کیا بہن بھائی یہاں تک کہ انسان ترقی کر کے اس نہج تک پہنچ گیا ہے کہ اکثر لبرل کہتے سنائی دیتے ہیں کہ میرا والدہ یا والد کے ساتھ اس بات پر اختلاف ہے ۔
اللہ پاک ہماری نسلوں کی اس فتنہ سے حفاظت فرما۔ اس کی بنیادی وجہ بھی ہمارے پڑھے لکھے معاشرے کی قوت سماعت کی کمی ہے۔ ہمارے بزرگوں کے پاس ڈگریاں تو نہیں تھی لیکن وہ اس وصف میں ہمیشہ نمایاں تھے زیادہ سنتے تھے، سمجھتے تھے اوربہت ہی محتاط ردعمل ظاہر کرتے تھے جب کہ آج کے خود ساختہ پڑھے لکھے لوگ اس کا بلکل برعکس کرتے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی قوت سماعت کی کمی ، تجربہ کاروں سے مشاورت نہ کرنا، فیصلہ کرنے میں جلدی کرنا اور ردعمل کو کئی گنا بڑھاچڑھا کر دینا ہے
ایک دن ایک لڑکا نماز کے لئے جا رہا تھا اس نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ درخت پر چڑھ کر کھجور اتار رہا ہے اس نے اس کو کہا آؤ نماز کا وقت ہے اس نے وہیں سے کہا اچھا آتا ہوں لڑکے نے غصے سے اس کو دوبارہ کہا کہ گدھے نیچے اتر نماز کا وقت ہے ۔ آدمی لگا درخت سے شاخ توڑنے کے نیچے اتر کر اسے بتاتا ہوں کہ گدھا کون ہے، لڑکے نے منہ رومال میں چھپایا اور بھاگ گیا ۔ عصر کے وقت جب دوبارہ وہاں سے گزرا تو اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے درخت پر چڑھے شخص کو سلام کیا اور اس سے خیریت دریافت کی اور پوچھا اس بار پھل کیسا ہوا ہے تو درخت پر چڑھے شخص نے اس نے شکریہ ادا کیا ، اس کو مال اور اولاد میں برکت کی دعا دی اور بولا کہ کیسا ہی اچھا ہو کہ نماز کا وقت ہونے والا ہے آپ نیچے اتر آئیں کچھ دیر آرام کیجئے نماز ادا کرنے کے بعد پر سکون ہو کر اپنا کام دوبارہ جاری رکھیں ۔ اس نے کہا کیوں نہیں وہ فورا نیچے اتر آیا اور اس کے ساتھ چل پڑا اس شخص نے اس کے حسن اخلاق کی تعریف کی اور ساتھ ہی ظہر کے وقت کے اس بدتمیز انسان کا بھی ذکر کیا۔
قارئین آپ بخوبی جانتے ہیں کہ عمل کے بغیر ردعمل نہیں ہوسکتا ۔ اگر آج میرا مالک، میرا دوست، میری بیوی، میرا شوہر، میرے والدین یا میرے بہن بھائی یا کوئی شخص مجھ سے ناراض ہے اور وہ بہت سختی سے پیش آرہا ہے اور اس کے لہجے کی کڑواہٹ ناقابل برداشت ہے تو غور کیجئے کہ وہ روزانہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ مالک یا سربراہ کا مزاج اچھا ہو تو آپ کے ساتھ دوستوں کی طرح پیش آتا ہے بس مذکورہ بالا مثال اور بحث کا حاصل یہ ہے کہ اگر ردعمل شدید ہے تو عمل میں ضرور کوئی دانستہ یا غیر دانستہ کمی ہو گی اس پر قابو پا کر آپ ردعمل کو بھی خوشگوار بنا سکتے ہیں ۔ صحابہ اکرام میرے نبی کے جان نثار جب بھی کسی مشکل میں ہپھس جاتے تو اپنے اعمال پر توجہ فرماتے کہ کوئی کام خلاف سنت تو نہیں کی۔ آخر میں اپنی نوجوان نسل کو ایک تاکید کے والدین کے ساتھ اختلافات نہیں ہوتے والدین کی صرف اطاعت کی جاتی ہے۔