شاعر مشرق علامہ اقبال کے شعر سے آغاز کرتے ہیں کہ
غیرت ہے بڑی چیز جہاں تک ودو میں،
پہناتی ہے درویش کو تاج سردارا۔
ویسے تو اللّٰہ پاک کا ہر حال میں ہی شکر اداکرنا چاہئے۔ لیکن اس کریم ذات کا انگنت شکر ہے کہ جس نے طبیعت میں والد محترم کی طرف سے ملنے والی موروثی غیرت کے عنصر کو ہمیشہ ہی نمایاں رکھا۔ اللّہ پاک سے دعا ہے کہ سب کی اولادوں میں بھی اس صفت کوپیدا کر آمین۔
اشفاق احمد صاحب کی وفات کے بعد کسی نے بانو قدسیہ سے ان کی سب سے بڑی خوبی کا پوچھا تو ان کا جواب مورخ سنہری حروف میں لکھے گا۔ بانو آپا نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ ایک عظیم لکھاری، فلسفی اور بہت بڑے انسان تھے۔ بے شمار ڈراموں، کہانیوں کے مصنف تھے۔ اپ نے اپنے زمانے سے آگے کے حالات بتائے مگر ان کی وہ خوبی جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے ان کی غیرت۔ یہ ہی صفت انسان کو پچاس روپے نہ ادا کرنے پہ شرمندگی کا احساس پیدا کرتی ہے اور تقاضا کرنے والے سے ناراض ہونے کے بجائے اس کے حق میں دعائیں کرواتی ہے اور یہ بنیادی صفت نہ ہو تو لوگ لاکھوں کا غبن کر کے بھی مطمئن نظر آتے ہیں۔ یہ ہی غیرت کا جذبہ ایک اعلی معاشرہ تشکیل دیتی ہے جس میں انسان اپنے ملک کے لیے جان دے سکتا ہے۔ کہتے ہیں نہ کہ غیرت مند انسان کا پتہ اس کی خاتون خانہ کے لباس سے لگایا جا سکتا ہے۔ غیرت مند انسان ہمیشہ اپنی چادر دیکھ کہ پاؤں پھیلاتا ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ غیرت مند ہونے کا فائدہ کیا ہے۔ سب سے پہلے تو مطمئن ہونے کا احساس، ۔معاشرے میں عزت اور رعب۔
یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ یہ صفت اسکول کالجوں، مدرسوں سے نہیں بلکہ والدین سے بچوں کو منتقل ہوتی ہے اس کے لئے والدین کا اولاد کو حلال کھلانا اور خود باعمل ہونا ضروری ہے۔ اپنی اولاد کو وقت دینا ان کی آراء کو مدنظر رکھنا اور سب سے بڑھ کہ اپنی اولاد کو اپنے دین سے جوڑنا۔ کیونکہ اسلام ہی آپ کو غیرت مند بناتا ہے۔
آج یہ عظیم صفت نہ پید ہو چکی ہے بلکہ آج کی نئی نسل کو اس کی اہمیت کا بھی اندازہ نہیں ہے۔ اس نفسا نفسی کے دور میں والدین، اساتذہ اور معاشرے کے دوسرے ذمہ دار کوئی بھی اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کو تیار نہیں۔ والدین کو پوچھو تو وہ اولاد کی جائز نا جائز ضروریات پورا کرنے میں اتنے مصروف ہیں کہ ان کی اولاد اخلاقی طور پر کس حد تک گر چکی ہے انہیں اس کا اندازہ ہی نہیں وہ بس بچوں کو اسمارٹ ڈیوائسسز دے کر اپنی زندگیوں میں مگن ہیں۔
استاد کیطرف دیکھیں تو وہ سلیبس اور نمبر کی ریس سے نکل ہی نہیں پاتے ۔اور اس میں ان کا قصور بھی نہیں کیونکہ والدین اور نجی تعلیمی اداروں کے مالک جو کہ زیادہ تر کاروباری شخصیات ہیں ان کا اساتذہ سے مطالبہ بھی نمبرز ہی ہیں ایسے میں اساتذہ نے کیا خاک بچوں کو تربیتی عمل سے گزارنا ہے۔ علما کی طرف دیکھیں تو الا ماشاءاللہ کوئی عالم دین ہو جو معاشرتی مسائل پر توجہ دلاتا ہو۔ آج ہم اتنے تنگ نظر ہیں کہ مساجد میں بچوں کا شور نہیں برداشت کرسکتے اور پھر شکوے بھی کرتے ہیں کہ نوجوان نسل مسجد نہیں آتی۔ اللہ پاک سے دعا یہ کہ ہمارے اسلاف کی طرح ہم میں اور ہماری اولادوں میں بھی یہ ہی صفت پروان چڑھا۔