علم و ادب کا گہوارہ بہاولپور

بہاولپور کے ایک مختصر سفر کے دوران مجھے صادق ریڈنگ لائبریری جسے بہاولپور سینٹرل لائبریری بھی کہا جاتا ہے، جانے کا موقع ملا۔ اکثر اوقات تصاویر میں قید کی جانے والے صادق گڑھ محل، گلزار محل اور نور محل جیسی عالیشان عمارتوں کی ہی طرح لائبریری کی عمارت بھی راج دور کی ایک یادگار ہے۔ تعمیر میں برٹش کولونیل طرز واضح طور پر نظر آتی ہے، لیکن وہاں آنے والے اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں۔

بہاولپور ہمیشہ مجھے پاکستان کا خوبصورت ترین شہر لگا ہے کیونکہ یہاں کی سڑکیں صاف ستھری٫ کشادہ ٫سڑکوں کے درمیان خوبصورت لہلاتے درخت خوبصورتی میں مزید اضافہ کر رہے ہوتے ہیں اگر یہاں گرمی نہ ہوتی تو ہم اس خوبصورت شہر کو منی اسلام آباد کہے سکتے تھے ! اچھا اس شہر کے دامن میں ایک عجیب سکون ہوتا ہے ہنگم ٹریفک تو یہاں بھی ہے لیکن اس کا شور و غل وہ کانوں کو پھاڑتے ہوئے ہارنوں کی آوازیں آپکو سنائیں نہیں دینگی۔

کہتے ہیں کہ ”جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیداہی نہیں ہوا“ لیکن میں کہتا ہوں ”جس نے بہاول پور نہیں دیکھا اُس نے کچھ بھی نہیں دیکھا“ یہ کئی تاریخی مقامات کا حامل شہر بہاول پور میٹھی زبان سرائیکی کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور اس میں جو کشش ہے وہ ہمیشہ انسان کو اپنے ساتھ جوڑ لیتی ہیں۔ 28 مئی 2022  کو 48 ڈگری کی جھلسا دینے والی گرمی وہاں سنٹرل لائبریری میرے لئیے ایک ٹھنڈی پناہ گاہ محسوس ہوئی ۔

افرادکی تربیت اور ترقی میں لائبریریاں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ان کی موجودگی اور عدم موجودگی کسی بھی آبادی کے تہذیبی رجحانات اور ترجیحات کی عکاسی کرتی ہیں۔ طالب علم ہر کتاب کو نہیں خرید سکتا، مگر لائبریری میں اُنہیں کئی بہترین کتابیں میسر ہو سکتی ہیں۔ لائبریری صرف کتابیں یا کتب بینی کےلیےایک ماحول مہیا نہیں کرتی بلکہ یہ معاشرے کا وہ حصہ ہے جہاں باقاعدہ مُستقبل کی نشوونما ہو رہی ہوتی ہے ٫ خیر آج میں آپکو اس تاریخی لائبریری اور چند تاریخی مقامات کا بتانا چاہوں گا اور اس تاریخی لائبریری اور تاریخی مقامات بارے میں نے موجود لائیبرین انچارج سے تعاون سے آپ تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ وہاں تصاویر بنانے کی اجازت بھی نہیں تھی میں نے جب اپنا تعارف بطورِ ایک لکھاری اور وی لاگر کرایا تو نہ صرف اجازت ملی بلکہ بہت ساری معلومات فراہم کرنے کے ساتھ تواضع بھی کی جس کیلئے میں انکا ممنون ہوں۔

ان دنوں بہاولپور ریاست پر نواب سر صادق محمد خان پنجم کی حکمرانی تھی، اور راج میں یہ چند امیر ترین شاہی ریاستوں میں سے ایک تھی، جس کی شہرت کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ ملکہ وکٹوریہ بھی یہاں کا دورہ کر چکی ہیں۔ جب پاکستان قائم ہوا اور 1951 میں بالآخر تسلیم کیا گیا تب اس ریاست نے کثیر فنڈز اور جائیدادیں امدادی طور پر فراہم کیں۔

لائیبریری کی دو نمایاں خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ جب آپ اندر داخل ہوتے ہیں تو آپ کی پہلی نظر لائبریری کی کشادگی، اس کی وسعت، اور بالترتیب رکھی ہوئی کتابوں پر پڑتی ہے۔ اس کے بعد، آپ جیسے ہی اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں تو آپ تاریخ کی لہر میں ڈوب جاتے ہیں، کیوں کہ لائبریری کی دیواریں بہاولپور کے نوابوں اور تحریک پاکستان کی دیگر اہم شخصیات کی تصاویر سے سجی ہوئی ہیں۔ ہر تصویر کے ساتھ اس ممتاز شخصیت کی مختصر سوانح عمری بھی درج ہے،غالباً دو لاکھ کتابوں اور 1500 فعال ممبران کے ساتھ، یہ کتابوں اور دیگر ساز و سامان سے بھرپور لائبریری اپنے آپ میں ہی ایک دنیا ہے لیکن دو لاکھ کتابوں میں محض پندرہ سو پڑھنے والے سوالیہ نشان ہے خیر مرکزی ہال کے علاوہ لائبریری کے دیگر دو سیکشن ہیں جن میں بچوں کی کتابوں کا سیکشن اور ایک آڈیو ویژوئل آرکائیو سیکشن ہے۔

لائبریری کی کچھ سب سے قیمتی چیزوں میں ڈان اور پاکستان ٹائمز کے ابتدائی شمارے شامل ہیں۔ یہ وہ دو اخبار ہیں جن کی بنیاد قائد اعظم محمد علی جناح نے رکھی تھی۔ پھر خوبصورت خطاطی کے انداز میں لکھے گئے قرآن مجید، جن میں سے چند ایک صدی سے بھی پرانے ہیں۔ وہاں ہرن کی کھال پر لکھے ہوئے چند قرآنی نسخے بھی ہیں؛ یہ قدیم نسخے امام حسین سے منسوب ہیں۔ یورپی سیاحوں کے دو صدی پرانے سفرناموں کے پہلے شمارے کو بھی محفوظ کیا گیا ہے۔ اسی طرح دیوانِ حافظ اور شاہ نامہ فردوسی کے فارسی شماروں کے ساتھ ساتھ مولانا رومی کی تصنیفات بھی یہاں موجود ہیں۔ دیگر قیمتی خزانوں میں ہفتہ وار طنزیہ برٹش میگزین پنچ، یا دی لنڈن چاریواری کے پرانے شمارے شامل ہیں۔ یہ وہی میگزین ہے جس نے کارٹون کی اصطلاح کے جدید استعمال کو متعارف کروایا۔

یورپی سیاحوں کے دو صدی پرانے سفرناموں کے پہلے شمارے کو بھی محفوظ کیا گیا ہے۔ اسی طرح دیوانِ حافظ اور شاہ نامہ فردوسی کے فارسی شماروں کے ساتھ ساتھ مولانا رومی کی تصنیفات بھی یہاں موجود ہیں۔ دیگر قیمتی خزانوں میں ہفتہ وار طنزیہ برٹش میگزین پنچ، یا دی لنڈن چاریواری کے پرانے شمارے شامل ہیں۔ یہ وہی میگزین ہے جس نے کارٹون کی اصطلاح کے جدید استعمال کو متعارف کروایا۔باہر نکلتے وقت دروازے کی دائیں جانب ایک چھوٹا ہال آتا ہے جس کے اندر چھوٹے چھوٹے بوتھ بنے ہوئے ہیں۔ لائبریری کے نگران نے بتایا کہ یہ بوتھ محققین کے لیے بنائے گئے تھے: خود کو اس میں قید کر لیجیے اور خود کو ہجوم کے شور و غل سے محفوظ بنا لیجیے۔