ابھی چند روز قبل ہی چینی صدر شی جن پھنگ کی جانب سے گلوبل سیکورٹی انیشیٹو پیش کیا گیا تھا۔ اس دوران انہوں نے عہد حاضر کے اہم مسائل کے حل کا ایک واضح کلیہ بھی پیش کیا اور بتایا کہ دنیا کو کس سیکورٹی تصور کی ضرورت ہے اور ممالک مشترکہ سلامتی کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ وسیع تناظر میں گلوبل سیکورٹی انیشیٹو، سلامتی کے شعبے میں بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کے تصور کو عملی جامہ پہنانے اور عالمی سطح پر قیام امن کی کوششوں کو آگے بڑھانے میں چین کی ایک اور شراکت اور تعاون ہے، جو دنیا کے مشترکہ مفاد کا ترجمان ہے۔
گلوبل سیکورٹی انیشیٹو (جی ایس آئی) کے مطابق، اشتراکی، جامع، تعاون پر مبنی اور پائیدار سیکورٹی وژن عالمی امن کو برقرار رکھنے کے لیے رہنما اصول ہونا چاہیے، اور تمام ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام بنیادی شرط ہونی چاہیے۔ مزید برآں، اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی پاسداری بنیادی تقاضہ ہے، تمام ممالک کے جائز سیکورٹی خدشات کو سنجیدگی سے لینا ایک اہم اصول ہے، اختلافات اور تنازعات کو مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کرنا ہی واحد راستہ ہے، اور روایتی اور غیر روایتی دونوں طرح کی سیکورٹی کو برقرار رکھنا ایک ناگزیر عمل ہے.
یوکرین کا بحران، وبائی چیلنج، دنیا کے کئی حصوں میں بڑھتی ہوئی افراط زر اور عالمی کساد بازاری، ان تمام عوامل نے بین الاقوامی گورننس کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، اور دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے بین الاقوامی نظام کو انتہائی دباؤ کا سامنا ہے۔آج دنیا کو ایک بار پھر تقسیم اور تصادم کے خطرات درپیش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام مسائل کا ادراک کرتے ہوئے عالمی امن کے استحکام، کثیرالجہتی اور بین الاقوامی یکجہتی کو برقرار رکھنے اور وبائی دور کے بعد ایک بہتر دنیا کی تعمیر کے لیے چین کی جانب سے
گلوبل سیکورٹی انیشیٹو پیش کیا گیا ہے جو بین الاقوامی برادری کی اہم ضروریات اور مشترکہ امنگوں کی احسن ترجمانی کرتا ہے۔ جی ایس آئی ایک متوازن، موثر اور پائیدار سیکورٹی ڈھانچے کے قیام کو فروغ دینے کی وکالت کرتا ہے۔ یہ بین الاقوامی تنازعات کی بنیادی وجوہات کے سدباب اور دنیا میں پائیدار استحکام اور سلامتی کے حصول کے لیے ایک نیا طریقہ پیش کرتا ہے۔
اس انیشیٹو کی ایک اور بڑی خوبی ہے کہ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی روح سے متصادم تمام گینگ رولز کی مخالفت کرتا ہے۔ یہ تمام ممالک سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی پابندی کا بھی مطالبہ کرتا ہے، متروک زیرو سم گیم اور گروہی محاز آرائی کو مسترد کرتا ہے۔اس کے برعکس پیچیدہ اور گھمبیر سیکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ مفاد کی ذہنیت کی حمایت کرتا ہے، اور تیزی سے بدلتے ہوئے بین الاقوامی منظر نامے کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لیے یکجہتی اور کثیرالجہتی کے جذبے کی حمایت کرتا ہے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ تصادم، گروہ بندی اور زیرو سم نقطہ نظر کی بجائے یہ انیشیٹو مکالمہ، شراکت داری اور سودمند تعاون کے فروغ کی تصویر ہے۔
جہاں تک چین کے کردار کی بات ہے تو چین امن پسند اور جنگ مخالف ملک ہے۔چین نے اپنے قول و فعل سے ثابت کیا ہے کہ وہ عالمی امن کا پرعزم معمار ہے۔ ایک بڑی طاقت کے طور پر، چین کا عالمی امن اور سلامتی میں بہترین ٹریک ریکارڈ ہے، کیونکہ چین نے نہ تو کبھی جنگ بھڑکائی ہے، نہ ہی کسی دوسرے ملک کی ایک انچ سرزمین پر حملہ کیا ہے اور نہ ہی کسی پراکسی جنگ میں ملوث رہا ہے۔ چین دنیا کا واحد ملک ہے جو اپنے آئین کی روشنی میں پرامن ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔چین نے بین الاقوامی نظم و نسق کے مستقل محافظ کے طور پر، تقریباً تمام بین الحکومتی تنظیموں اور 400 سے زائد کثیرالطرفہ معاہدوں میں شمولیت اختیار کی ہے۔چین اقوام متحدہ کے واجبات کی بروقت ادائیگی سمیت قیام امن کی کوششوں میں تعاون کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے جو اقوام متحدہ کے امن دستوں کے لیے 50 ہزار سے زائد
فوجی اہلکار بھیج چکا ہے۔ چین اس وقت بھی ہاٹ اسپاٹ مسائل کے حل کے لیے فعال ثالث کا کردار بخوبی نبھا رہا ہے، امن مذاکرات اور سیاسی تصفیوں کے ذریعے تمام فریقوں کے جائز خدشات کو دور کرنے اور ایک متوازن حل کی مسلسل وکالت کر رہا ہے، علاقائی اور بین الاقوامی تناؤکو کم کرنے میں بھی چین کا تعمیری کردار دنیا کے سامنے ہے۔یہ تمام اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ عالمی امن کے ایک مضبوط محافظ کے طور پر چین دنیا میں مستقل قیام امن کے لیے سنجیدہ ہے اور دنیا کے اہم ممالک سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک محفوظ اور پرامن دنیا کے لیے مشترکہ اقدامات کریں جس سے آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔