وہ سارے کمرے میں اپنی دنیا سجائے بیٹھا تھا،ایک طرف کاغذی کشتیاں تھیں تو دوسری طرف بحری بیڑے اور صلاح الدین ایوبی کو اسپائیڈر مین کے اوپر ایک سپاہی کا لباس چڑھاکر اس نے جانباز سپہ سالار ترتیب دیا تھا،شمال کی طرف زمینی فوجی گردش کررہے تھے،جنوب میں اس نے کاشتکاری کے لیے کھیتیوں کو مختلف چوپایوں کے ساتھ مصنوعی کاریگری سے سجا رکھا تھا،ایک طرف جنگل تھا،ہرن بندر اورشیر سے آراستہ،جبکہ اسکے بعد بھی نجانے کتنی جگہوں پر اس نے پہاڑوں کو اپنی مخصوص چکنی مٹی سے تراش خراش کر بنایا تھا،کاریگری اسکے ہاتھ کی تو تھی ہی،مگر نجانے کیوں کھڑکی سے باہر نظر آتے کچھ لڑکوں پر اسکی نظریں مرکوز تھیں،اتنی ساری زندگی ترتیب دینے کے بعد وہ آگے کا سلسلہ ضرور کسی نہ کسی سبب منقطع ہوجاتا اور ہمیشہ اسکی کہانی ادھوری رہ جاتی،کبھی وہ رنگ بھر کر کاغذوں کے جہازبناتا اور انکو گھنٹوں اڑاتا رہتا،اپنی تخیل کی تصویر کشی میں اسکی جغرافیائی سرحدیں مغربی ممالک تک جاملتیں، پھر مزے سے کہتا کہ یہ میرا میزائل جیت گیا اس نے اٹیک کرکے تمام یہود و نصاریٰ کو اپنے انجام تک پہچادیا۔
ایسے میں ہی اسکو محسوس ہوا کہ امی اسکو آواز دے رہی ہیں،اتنے میں ہی وہ آواز قریب ہوتی محسوس ہوئی،تب ہی دو لمحے میں دروازہ کھلا،امی اسکو دیکھ کر اسی پچھلی صدا کو دہرانے لگیں،سلطان ! بیٹا آجاؤں آج آخری روزہ ہے،کب سے بلارہی ہوں آپکو، انکی آواز تھمی تو سلطان نے کہا اچھا،میں بس ابھی آتا ہوں،بس دو منٹ دے دیں،مجھے کچھ کھلونے جمع کرنے ہیں۔
سلطان کی امی نے سوال کیا بھلا کھلونے کیوں جمع کرنے ہیں؟ سلطان نے کن انکھیوں سے انہیں دیکھا اور بولا، امی ! کچھ کھلونے یہ جو لڑکے روز گلی میں آکر ہماری گلی کو صاف کرجاتے ہیں انکو گفٹ دونگا، امی بولیں بیٹا۔میں نے بنایا تھا ایک شاپر،کھلونے دینے کے لیے پھر وہ اٹھ کر بڑا شاپر اٹھا لائیں مگر جونہی سلطان نے ان کھلونوں کو دیکھا تو کہا امی آپ نے اس میں سارے ٹوٹے کھلونے ڈال دیئے،اس سے انکا کیا بھلا ہوگا آخر،وہ کہنے لگیں بیٹا تھوڑے سے ٹوٹے ہیں،کام آجائیں گے،عید ہے کچھ کپڑے بھی تمہارے رکھ دئیے ہیں سلطان نے انکو بھرپور دیکھا اور کہا امی ! آپ مجھے بتائیں ۔آپکو اللہ تعالیٰ نے آپکے بچے دئیے،ان بچوں میں کوئی نقص بھی تھا؟کسی چیز کی کمی تھی؟ایسا ہوا تھا کہ ہاتھ ہیں پیر نہیں،یا وہ سن نہیں سکتے یا دیکھ نہیں سکتے؟اللہ نے آپ کو ہر چیز مکمل دی ہے،جب اللہ نے آپ کو موقع دیا کہ آپ کسی کو کچھ دیں سکیں تو آپ نے ٹوٹی ہوئی چیزیں دے دیں،اللہ میاں کو یہ بات کتنی بری لگے گی۔اور یہ لڑکے تو خود محنت کرتے ہیں،گھنٹوں یہاں کسی کے پودے ٹھیک کرتے ہیں، کسی کی گاڑی صاف کرتے ہیں،اتنی خدمت کرنے پر انکا حق ہے کہ وہ اپنی عمر کے مطابق تفریح بھی کریں۔
امی آج اسکو بغور دیکھے جارہی تھیں دل ہی دل میں شرمندگی لیے نیچے چلی گئیں مگر انکی دل کی حالت بہت رودینے کو تھی کہ کبھی انہوں نے نہ سوچا کہ کونسی بھلائی کرنے میں کن باتوں کا خیال رکھنا ہےاور کیسی چیز اللہ کی راہ میں لٹانی ہے،خرچ تو وہ بھی کیا کرتیں مگر آج کی یہ بات دل کی اسیر ہورہی تھی،وہ سوچنے لگیں،ہم تو عبادت بھی کرتے ہیں، تو ان بے شمار نعمتوں کے بدلے عبادت میں بھی ڈنڈی مارتے ہیں۔
سلطان نیچے اترا تو اسکے ساتھ بڑے شاپر میں کھلونے تھے،جن سے وہ جنگیں بھی کرتا تھا اور محاصرے بھی کرتا تھا، مگر آج اس نے اپنے نفس کی جنگ کرکے بہت سے محاصرے کرلیے تھے اور شیطان جیسے خبیث دشمن کو اپنی توپوں سے نیست و نابود کردیا تھا،اسکو پتہ تھا،یہی سب سے بڑی جیت ہے، کیونکہ کل ماسٹر صاحب نے اسے یہی بتایا تھا،ادھر امی جان سوچ رہی تھیں کہ ہم بہت سی باتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں جبکہ چھوٹی سی نیکی بھی کیا پتہ ہمارے لیے روز آخر دلیل بن جائے۔
اگلے عید کے دن گلی کے انہیں لڑکوں کے ساتھ سلطان جہاز بنارہا تھا اور انکو بتارہا تھا کہ ٹیپو سلطان کیسے جنگ لڑتا تھا اور ابن قاسم نے اپنی تلواروں سے کیسے سارے تابوت توڑ ڈالے تھے۔
پھر وہ سب پلاننگ کررہے تھے کہ ہم آئندہ کیسے اپنا محاذ بنائیں گے اور جنگ کریں گے۔نماز کے وقت وہ سب ساتھ ہی باتیں کرتے جارہے تھے،عید کا سماں دوبالا ہورہا تھا۔