مفلوج نظام

میں جب گھر سے نکلتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں۔ سڑکوں پر گھنٹوں ٹریفک جام ہے. میں ٹریفک جام دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہوں. اتنے میں ایمبولینس کے ہارن بجنے کی آواز میرے کانوں تک پہنچتی ہے. ایمبولینس ٹریفک سے نکلنے کی سر توڑ کوشش کرتی ہے،مگر وہ ٹریفک کے چنگل سے خود کو آزاد کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے. اور یوں ایمبولینس میں موجود مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے دم توڑ دیتا ہے. افسوس کرتے ہوئے اس نظام کو کوستے ہوئے میں آگے چل دیتا ہوں. تھوڑی دیر بعد اور آگے چلتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک مین ہول کا ڈھکن کھلا پڑا ہے اور ایک معصوم بچی اس میں گر کر جان بحق ہوجاتی ہے. لوگ ارد گرد جمع ہوتے ہیں. دل افسردہ ہوجاتا ہے۔
بس میں چڑھتا ہوں. تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بس میں گنجائش چالیس افراد کی تھی اور بس میں سوار ایک سو چالیس افراد ہیں. بس سڑک پر چلتی ہے تو لگتا ہے جیسے زلزلہ آگیا یے. پھر یاد آتا ہے کہ سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے. اتنے میں بس سڑک پر ہچکولے کھاتی ہے اور میرا سر بس میں لگے لوہے کے پائپ سے ٹکرا کر زخمی ہوجاتا یے. اتنے میں کنڈیکٹر کرایا کے بیس روپے طلب کرتا ہے. جبکہ کرایا پندرہ ہوتا ہے. میں کہتا ہوں کرایا تو پندرہ ہے . جواب میں کنڈیکٹر نتھنے پھلائے،آنکھیں پھاڑ اور پیشانی پر بل ڈال کر کہتا ہے، بیس دینا ہے یا بس سے اترنا ہے. میں بیس کا نوٹ پکڑا دیتا ہوں. خیال آتا ہے کہ اس دیس میں ہر طرف ہی لوٹ مار ہے۔
بس سے اترتا ہوں تو دکھائی دیتا ہے کہ ایک خاتون بس پر لٹک کر سفر کررہی ہے. اتنے میں ایک نوجوان لڑکی بھیک مانگتے فریاد کرتے میرے پاس آتی ہے. اے بھائی۔۔۔ اے بھائی… دس روپے دے دو، رب دس لاکھ کا مالک بنائے گا. میں پیسے دینے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوں تو جیب سے ہاتھ نکل کر باہر آجاتا ہے۔ میں حیرانی سے جیب کو ٹٹولتا ہوں پھر یقین آجاتاہے کہ جیب کٹ چکی ہے. نگاہیں آسمان کی جانب اٹھ کر جھک جاتی ہیں۔
آگے چل پڑتا ہوں دیکھتا ہوں کہ سامنے جسم فروشی ہوتی دکھتی ہے. میں آہ بھر کے کہتا ہوں کہ اس ظالم دنیا میں پیٹ پالنا کتنا دشوار کام ہے۔
قدم آگے بڑھاتا ہوں تو ایک بچہ میرے پاؤں پکڑ کر مجھ سے بھیک مانگنے لگتا ہے. میں بڑی مشکل سے اسے سمجھا بجھا کر دور کرتا ہوں. کس نے اس معصوم کو گداگری پر لگادیا۔
قدم آگے بڑھتے ہیں۔محافظوں کو رشوت لیتے دیکھتا ہوں۔
اب میں گھر کی جانب چلنے لگتا ہوں سڑکوں کے آس پاس فٹ ہاتھوں پر کوئی نشے میں دھت اوندھا پڑا ہے۔کوئی غربت کی وجہ سے سویا ہوا ہے۔ کوئی کٹورا لیے کھڑے بھیک مانگ رہا ہے۔
سڑکوں پر بھکاریوں کی بہتات دیکھ کر لگتا ہے کہ اس ملک کا ہر دوسرا آدمی بھکاری ہے۔ ان میں سے مستحق کون ہے یہ معلوم کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔
یہ سوچتے ہوئے میں آگے بڑھ جاتا ہوں. ایک دیوار کے قریب سے گزرتے ہوئے، دیوار پر حکیموں، عامل بابا، بنگالی بابا کے اشتہارات اور سیاسی نعرے درج دیکھ کر میرے چلتے قدم رک جاتے ہیں. پھر میں اپنے دائیں بائیں موجود دیواروں پر اپنی نظریں ڈالتا ہوں تو ہر دیوار پر، چٹ منگنی پٹ بیاہ، ساس بہو کی مٹھی میں،محبوب آپ کے قدموں میں بواسیر، قبض اور نجانے کن کن بیماریوں اور پریشانیوں کا حل ان دیواروں پر لکھا ہوا پاتا ہوں. یہ سب پڑھ دیکھ کر لگا کے اس ملک کے ہر عام آدمی کا مسئلہ شاید یہی ہے جو ان دیواروں پر درج ہے. نعرہ روٹی کپڑے اور مکان کا لکھا تھا اور سامنے لوگ سڑک پر روٹی کپڑے اور مکان سے محروم دکھائی دے رہے تھے. میں ایک بار پھر چہرے پر افسردگی کو سجائے آگے بڑھ جاتا ہوں۔
ہم عجیب و غریب لوگ ہیں. کیوں ہم ہر واقعے پر سڑک پر اتر آتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے میں نے خود کلامی کی اور جواب کچھ نہ ملا میں آگے چل پڑا۔
پھر سوچتا رہا کہ آخر غریب کو نہ سڑکوں پر انصاف ملتا ہے. اور نہ عدالتوں میں وہ تو بے بس و لاچار اس ظالم نظام کے شکنجے میں نیم پاگل ہوچکا ہے. سڑک بند کرنے سے نہ تو امریکہ، اسرائیل اور نہ ڈنمارک کا کچھ بگڑنا ہے۔ ہاں ہمارا بہت نقصان ہوجانا ہے۔ جس کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔
آگے چلتا ہوں تو پولیس یعنی ہمارے محافظ مجھے روک کر کہتے ہیں تلاشی دو میں ان کے حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے تلاشی دیتا ہوں. جیب میں ہاتھ ڈالنے پر جب جیب کٹی ہوئی اسے ملتی ہے،تو سوال کرتا ہے، جیب کہا گئی؟ جواب دیتے ہوئے میں کہتا ہوں. جیب کوئی کاٹ کر لے گیا. اچھا لاؤ پچاس سو روپے تو پکڑادو. میں کہتا ہوں جیب کٹ چکی ہے نظر تو آرہی ہے. پھر بھی مجھ سے آپ پیسوں کا مطالبہ کر رہے ہیں. آپ بھی صاحب اولاد لگتے ہیں. آپ کے بیٹے کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کرے تو آپ کو کیسا لگے گا. چل چل نکل یہاں سے دماغ کی دہی مت بناؤ. آگے جا لیکچر کسی اور کو دینا. پولیس والے کی زبان سے نکلنے والے یہ الفاظ میرے دل پر خنجر کے وار ثابت ہورہے تھے. اس کا رویہ اس سے زیادہ مجھے تکلیف دہ لگا. شاید یہاں کے انسانوں میں میں سے انسانیت ہجرت کرگئی ہے اور صرف انسان موجود ہیں. جیسے مکانوں میں سے لوگ ہجرت کر جاتے ہیں اور مکان ویران رہ جاتے ہیں۔
گھر آتا ہوں،شام جانے کو اور رات آنے کو تیار ہوتی ہے. بھوک سے نڈھال ہورہا ہوتا ہوں، کھانا گرم کرنا چاہتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ گیس بھی موجود نہیں۔
اپنے کمرے کا رخ کرتا ہوں، اور تھکن سے چور چور بیڈ پر لیٹ جاتا ہوں. اتنے میں موبائل کی بیٹری اپنے اختتام کے آخری کنارے پر موجود ہوتی ہے. میں چارج کرنے کے لیے موبائل چارج پر جوں ہی لگاتا ہوں. پلک جھپکتے ہی لائٹ چلی جاتی ہے۔
لائٹ جاتے ہی میرا قلم بھی اپنے اس کنارے پر پہنچ جاتا ہے. جہاں سے آگے چلنے کے لیے اسے اس نظام کو تبدیل کرنے کے لیے اپنی کاوشوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔

حصہ
mm
سید ثاقب شاہ اپنے قلمی نام ابن شاہ سے بھی لکھتے ہیں،گریجویٹ ہیں۔مانسہرہ کے رہنے والے ہیں لیکن ان دنوں کراچی میں مقیم ہیں۔

جواب چھوڑ دیں