کیا ہو گا اگر!

 

آج رمضان کی ستائیسویں رات تھی۔ انجم بچوں کو طاق رات کے بارے میں بتا رہی تھی۔ اس کے تینوں بچے ہادیہ، محمد اور احمد رات سوتے وقت کہانی ضرور سنتے ہیں۔ ہادیہ پانچ سال کی ہے اور بھائیوں کی آپی ہے۔ جب سے رمضان شروع ہوا ہادیہ نے ہر رات فرمائش کی کہ اسے سحری میں جگایا جائے وہ بھی روزہ رکھے گی۔ بھائی بھی اس کی دیکھا دیکھی اسی خواہش کا اظہار کرتے تھے۔

کچھ دن سحری کی اور اعلان کیا کہ اب وہ بھی روزہ رکھے گی۔ جب صبح چھوٹے بھائی ناشتہ کر رہے ہوتے تو وہ بھی ساتھ شامل ہو جاتی۔ یوں چھوٹے چڑی روزے تو رکھے تھے مگر مکمل روزہ رکھ نہیں سکی تھی ابھی چھوٹی تھی۔ ( دن بھر بھائی جو کھاتے پیتے رہتے تھے یہ بھی ایک وجہ تھی۔ مرغوبات نفس)۔

خالہ پاکستان سے کال کرتیں تو پوچھتیں ہادیہ روزہ رکھا ہے۔ ہادیہ نے کہتی جی رکھا ہے، بس مما نے ناشتہ کرا دیا۔ چچا کی کال آئی ہادیہ سے بات کرائیں ہادیہ سے پوچھا روزہ رکھا ہے۔ وہی جواب جی رکھا ہے۔ کہاں رکھا ہے؟ اس سوال پر ہونق صورت بنائے سوچ رہی تھی کیا جواب دے روزہ کہاں رکھا ہے؟۔ چچا نے ہی مشکل آسان کی الماری یا چینک میں رکھا؟ کہنے لگی دراز میں رکھا ہے۔

آج ستائیسویں کی طاق رات تھی۔ انجم نے طاق رات کی کہانی( ہر چیز کو سمجھانے کے لئے اسے کہانی کی صورت بتانا ہوتا) سنائی۔ پوچھا کل ستائیسواں روزہ ہے کیا رکھنا ہے؟ سب یک زبان بولے جی ہاں رکھنا ہے۔

انجم نے مذاقا پوچھا کہاں رکھنا ہے ؟ ہادیہ کو جیسے یاد آ گیا۔ پوچھنے لگی مما آپ روزہ کہاں رکھتی ہیں؟ (جگنو کو دن کے وقت پرکھنے والے بچے اب آپ سے بھی ویسے ہی سوال کرتے ہیں) جہاں آپ رکھیں گی میں بھی رکھوں گی۔ انجم کہنے لگی میں نے چھپا کر رکھا ہے تاکہ چوری نا ہو جائے۔ ہادیہ بضد کہ اسے بتایا جائے کہ مما روزہ کہاں رکھتی ہیں ۔ انجم سوچنے لگی کیا جواب دے ہادیہ کو سمجھ بھی آ جائے اور جھوٹ بھی نہ ہو۔ سوچ کر کہنے لگیں میں نے روزہ اللہ جی کے پاس رکھا ہے۔

اب ہادیہ الرٹ ہو کر بیٹھ گئی مما اللہ جی کے پاس کیوں رکھا۔؟ کیونکہ وہاں وہ محفوظ رہے گا نا! تو واپس کب ملے گا؟ جب ہم اللہ جی سے ملاقات کریں گے۔

پھر مما ہم اس کا کیا کریں گے؟ ایک اور سوال،

جنت کی مزے مزے کی چیزیں لیں گے۔ (ان شاء اللہ )

کتنی چیزیں ملیں گی ایک روزے کی وہ ہاتھ سامنے کر کےبیٹھ گئی ( ہادیہ نیا نیا حساب سیکھ رہی تھی۔) انجم کہنے لگی بہت ساری چیزیں ۔ اب ہادیہ کو یہ حساب سمجھ نہیں آیا کیونکہ اس کی حساب کی ٹیچر نے ایسا حساب تو بتایا ہی نہیں۔ ایک اور سوال وہ کیسے ؟ انجم نے اسے حدیث سنائی کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں، روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔

ہادیہ کو مکمل اطمینان ہوگیا کہ روزہ رکھنے کی سب سے محفوظ جگہ اللہ جی کے پاس مل گئی ہے۔ اور اس کے بدلے جنت کے مزے ملیں گے۔ ایک ایک روزے کا بہت اجر ملنا ہے کیونکہ اللہ سے بڑھ کر اجر بھی کوئی دے سکتا بھلا۔؟

مگر ہادیہ کی چہرے پر ایک سوال ابھی بھی تھا۔ مما روزہ چوری بھی ہوتا ہے؟ جی بیٹا چوری بھی ہو جاتا ہے اور گم بھی ہو سکتا ہے۔ اب ہادیہ کی فکر دیدنی تھی کہ روزہ کیسے چوری ہوتا ہے؟ اس کی چیزیں گم ہو جاتی تھیں روز خاص طور پر پنسل ربڑ تو وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر پریشان ہو جاتی تھی۔

انجم بتانے لگی کہ شیطان روزہ چوری کر سکتا ہے۔ مگر کیسے؟ روزے میں وہ کام کرا کے جو اللہ جی نے منع کئے ہیں۔ ہم جھوٹ بولیں، چغلی کھائیں، غیبت کریں، جھگڑا کریں، ہم ان کاموں میں اگر لگ گئے تو وہ چالاک دشمن تو چوری کر لے گا ہمارا روزہ۔

اور گم کیسے ہو گا؟۔ گم ایسے کہ ہم نے خالص اللہ کے لئے نہ رکھا۔ دکھاوا کیا ۔ صرف واہ واہ سمیٹی تو یہ ریا ہو گی۔ اور ریا تو شرک ہے نا۔ قیامت کے دن سب شریک کھو جائیں گے گم ہو جائیں گے۔

ہادیہ نے عہد کیا کہ وہ اپنے روزے کی حفاظت کرے گی اور اللہ جی کے پاس سنبھال کر رکھے گی۔ تاکہ چوری نا ہو جائے۔

اب انجم بچوں کو دعائیں پڑھانے لگیں، ہادیہ کو طاق رات کی دعا یاد ہوگئی تھی پوچھنے لگی مما عفو کیا ہوتا ہے؟

عفو کہتے ہیں معاف کرنے کو، درگزر کرنے کو، ہمارے قصور کو چھپا لینے کو ۔ جیسے آپ نے صبح جو گلاس توڑا تھا بابا نے اس کا ذکر کسی سے نہیں کیا اور چھپا کر کوڑے دان میں ڈال دیا۔ (ہادیہ جو سمجھ رہی تھی کہ مما کو معلوم ہی نا ہو سکا گلاس ٹوٹنے کا۔ یہ راز بس بابا اور اسکے درمیان تھا۔ تو مما کی بات پر شاک لگا۔ )

مزید سوالات کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ سحری میں جگانے کے وعدے کے ساتھ ہادیہ تو نیند کے ہنڈولے میں جھولنے لگی مگر انجم کے لئے سوچ کے در وا کر گئی۔

کیا ہو گا کہ اتنی محنت سے رکھے روزے جب اجر کے لئے حاضر ہوں تو پتا چلے وہ رکھے ہی نہیں چوری ہو گئے ہیں ۔

ریا اور دکھاوا کرکے اگر میں اپنے ہاتھوں اجر گم کر بیٹھی تو؟

کیا ہو گا کہ طاق راتیں یونہی گزار دیں اپنے قصور معاف نہ کرا سکی۔

کیا ہو گا اگر اللہ نے اپنی رحمت سے میرے قصور سے صرف نظر نہ کیا تو۔

بچے سو چکے تھے۔ انجم نے وضو کیا اور نئے عزم سے امید سے خوف سے اللہ سے مناجات میں مصروف ہو گئی۔