حضرت علی ؓ نے فرمایا انسان کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ ایک انسان کا جسم ایک انسان کی روح، انسان پورا سال مسلسل اپنے جسم کی خواہشات کو پورا کرنے میں لگا رہتا ہے اور اپنی روح کی توانائی کی فکر نہیں کرتا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایک مہینہ ایسا رکھا جس میں انسان سورج طلوع ہونے سے لے کر سورج غروب ہونے تک اپنی جسمانی خواہشات پر قابو پا لے تاکہ اس کو یہ احساس ہو کہ کوئی اس کو دیکھ رہا ہے۔ اس کے اندر اللہ کا خوف پیدا ہو اور یہ احساس پیدا ہو کہ وہ نعمتیں جو میں سارا سال کھاتا رہتا ہوں اور جن نعمتوں سے رب نے ہمیں نوازا ہے اگر وہ ختم ہو جائیں تو ہمارے ساتھ کیا ہو گا اور یہ احساس انسانوں میں پیدا کیا کہ ان انسانوں کی بھوک کا احساس کرو جو پورا سال پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتے۔ اللہ نے انسان کے جسم کی بیماریوں کو روکنے کیلئے اور روح کی توانائی کیلئے روزہ فرض کردیا لیکن صرف بھوکا رہنا روزہ نہیں، آنکھوں کا بھی روزہ ہے، زبان کا بھی روزہ ہے، ہاتھوں کا بھی روزہ ہے، قدموں کا بھی روزہ ہے۔
صرف بھوک پر قابو پانا نہیں بلکہ خواہشات پر قابو پانا بھی روزہ ہے۔ اگر کسی شخص کو عادت ہو گئی ہے کہ وہ فحش مناظر دیکھتا ہے تو وہ اپنی آنکھوں کو اس سے روکے اگر کسی کے کانوں سے غلط باتیں سنتا ہے تو وہ کانوں کو بھی روکے۔ اگر انسان کی زبان سے دوسرے انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے، دل آزاری ہوتی ہے تو انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زبان پر بھی قابو رکھے۔ اگر ہاتھوں سے قدموں سے بھی دوسرے انسانوں یا مخلوق خدا پر ظلم کرتا ہے تو وہ اپنے ہاتھوں اور پیروں کو بھی روکے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے نفس کو اپنی خواہشات سے روکنے کو روزہ کہتے ہیں۔
روزے کی حکمت کیا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
لعلکم تتقون تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔
جب تک روزے دار روزہ کی حالت میں ہوتا ہے فرشتے اس روزے دار کی بخشش کی دعا کرتے ہیں اور جب ماہ صیام ختم ہو جاتا ہے تو روزے دار کو بخش دیا جاتا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ابن آدم کا ہر عمل اسی کیلئے ہے مگر روزہ ہے جو میرے لیے رکھتا ہے اور اس کی جزا میں ہی اسے دوں گا۔
روزہ ڈھال ہے۔ جب کوئی شخص روزہ رکھے تو اللہ کی نافرمانی نہ کرے اور اپنی زبان، آنکھ،ہاتھ، پاؤں اور جسم کے تمام اعضاءکو گناہ سے بچا کر رکھے اسی کا نام روزہ ہے۔ اس دنیا میں سب سے بڑی دولت جو انسان کو دنیا میں دی گئی ہے وہ ایمان کی دولت ہے اور قیامت کے دن جو سب سے بڑی جزا ایمان والوں کو دی جائے گی وہ اللہ کا دیدار ہے اور یہ روزے داروں کو انعام ہو گا۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے۔
اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلی امتیں گزری تھیں ان پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی بن سکھو۔ گناہوں سے بچنا اور نیکی کی طرف رجوع رہنا ہی تقویٰ ہے۔ رمضان کا مقصد بھی تقویٰ ہے۔
زندگی بہت مختصر ہے پتہ نہیں اگلا رمضان نصیب بھی ہوتا ہے کہ نہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے زندگی ہمیں جو بھی موقع دے ہم اسے اللہ کی رضا کے مطابق گذاریں۔ پورے سال بعد یہ ایک مہینہ رمضان المبارک کا آتا ہے جس میں انسانوں کو اپنی بخشش کرانے کا موقع ملتا ہے۔ اپنی روح پاک کرانے کا موقع دیا جاتا ہے۔ ہمیں اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ روزہ اسلام کے پانچ ارکان میں شامل ہے۔ اس لیے ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ کوشش کیجیے کہ رمضان المبارک کو اس کے پورے تقدس کے ساتھ گذاریں۔ اللہ ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔