عید کے دن بڑی تیزی سے قریب آرہے ہیں اور رمضان کا بابرکت مہینہ ہم سے بچھڑنے جارہاہے۔ اللہ پاک ہمیں اس مہینےکی رحمتیں اور برکتیں بھرپور طریقے سے سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
یہ تو ہوگئی رمضان المبارک کی بات، اب کچھ باتیں عید کے حوالے سے کرلیتےہیں۔ جیسے جیسے عید قریب آرہی ہے بچوں کی خوشی کا عالم دیکھنےوالاہے۔ بچے رمضان کے دن گن گن کرگزاررہےہیں کہ اتنے دن رہ گئے ہیں، اب اتنے دن باقی ہیں۔ اصل میں بچوں کوعید کےنئے کپڑوں، جوتوں اور جیولری وغیرہ کے ساتھ سب سے زیادہ انتظار عید پر ملنے والی عیدی کا ہوتا ہے جو کہ وہ اپنے تمام رشتہ داروں اور محلےوالوں سے جمع کرتےہیں۔ جب عید کا دن آتا ہے تو تقریباً ہر گھر کے افراد یا تو خود کہیں مہمان ہوتے ہیں یا پھر کوئی ان کے گھر میں رحمت بن کر آجاتاہے۔کیونکہ مہمان تو اللّٰہ کی رحمت ہوتےہیں ناں۔ لیکن کہیں کہیں ہمیں بچوں کی یہ خوشی غم کی یہ ڈھلتی نظر آتی ہے۔ اب آپ سوچیں گے کہ وہ کیسے۔ ؟ تو بھئی وہ ایسے کہ تمام رشتہ دار یا محلے والے ایک جیسے طبقے سے تعلق نہیں رکھتے کوئی صاحب حیثیت ہے تو کوئی کم حیثیت والا۔ جب کوئی غریب بچہ باحیثیت گھرانے میں مہمان ہوتا ہے تو وہاں اس کو امیروں کے بچوں کے برابر نہیں سمجھا جاتا ہے۔
چھوٹی چھوٹی باتوں پر غریب کے بچے کو ڈانٹ دیا جاتا ہے اور امیر کے بچوں کی باتوں کو درگزر کر دیا جاتا ہے۔ یہ ان بچوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ معصوم بچوں کے دل نازک ہوتے ہیں۔ جو کہ اس رویے سےٹوٹ جاتے ہیں اس طرح کا سلوک ہوتا دیکھ کریہ بچے پھر اس گھر میں جانے سے کترانے لگتے ہیں وہاں انہیں اپنی تذلیل محسوس ہوتی ہے اور وہ احساس کمتری کا شکار ہونے لگتے ہیں۔جبکہ امیر کے بچوں میں تکبر جنم لینے لگتا ہے۔ اور جب عیدی کی باری آتی ہے تو اس میں بھی فرق کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ رواج عام ہے کہ امیر کے بچے کو عیدی زیادہ ملتی ہےاور غریب کے بچے کو کم دی جاتی ہے۔
ایک غریب گھر کا فرد بھی اگر عیدی دےگا تووہ بھی امیر کے بچے کو زیادہ دے گا۔ اس کے لیےچاہے اسے قرض لینا پڑے کہیں اسکا مذاق نہ بن جائے کہ بس اتنی ہی عیدی۔ جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ چاہیے بچہ امیرکا ہو یا غریب کا عیدی ایک جیسی ہونی چاہیے بلکہ اگر ہوسکے تو غریب کے بچے کو زیادہ عیدی دی جائے تاکہ وہ کم ازکم عید کے دنوں میں تو اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرسکے جو وہ عام دنوں میں پوری نہیں کرپاتے۔
(غریب کے بچے کو زیادہ عیدی دینے سے گریز کیا جاتا ہے کہ یہ کیا کریں گے اتنے پیسوں کا انہیں تو عادت ہی نہیں ہے زیادہ خرچ کرنے کی) اس طرح بے چارے بچے عید کے دن بھی افسردہ ہو جاتے ہیں۔
آئیے مل کر عہد کریں کہ اس عید پراگر غریب کے بچے کو100 روپے عیدی ملے گی تو امیر کے بچے کو بھی 100 روپے ہی دیے جائیں گے۔اے اللّٰہ پاک ہمیں آپس میں امیر اور غریب کا فرق کرنے سے بچا اور ہمیں اپنے بچوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنے کی توفیق عطا فرما۔