ملک میں حکومت تبدیل ہوگئی۔ سلیکٹڈ کے بعد امپورٹڈ آگئے۔ کون آیا اور کون گیا اگر آپ اس سوال کا جواب دادو کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والے امام الدین سے پوچھیں گے تو وہ آپ کو اپنی بھیگی آنکھوں سے بتائے گا کہ سائیں ! آگ لگی تھی لیکن فائر بریگیڈ نہیں آئی۔ سائیں! اجل آئی تھی اور اسے کے تین بیٹوں اور ایک بیٹی کو ساتھ لے گئی ہے۔ دادو جہاں غریبوں کی ایک بستی میں آگ لگنے سے 9 کمسن بچے جاں بحق ہوگئے تھے لیکن سنا ہے کہ فائر فائربریگیڈ اس وقت پہنچی تھی جب ان بچوں کے جسم سوختہ ہوگئے تھے۔ گاؤں کے رہائشی بتاتے ہیں کہ تقریباً ہر گھر میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ اُس رات تیز ہوائیں تھیں اور گاؤں میں موجود گندم کے ایک ڈھیر میں اچانک آگ بھڑک اٹھی جو دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کے گھروں تک جاپہنچی اور لوگوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ ساری رات آگ لگی رہی لیکن ہماری مدد کو کوئی نہ آیا۔ اس دوران کسی کے پیارے جان سے گئے اور کچھ کوزندگی بھر کی جمع پونجی اور مال مویشیوں سے محروم ہونا پڑا۔ آتشزدگی کی وجہ سے نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ لوگوں کی ساری املاک جن میں فرنیچر، رقوم ، گھریلو استعمال کی اشیاءاور تین ٹریکٹرز بھی شامل تھے، جل کر خاکستر ہوگئے۔
یہ اس وادی سندھ کا حال ہے جہاں گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے پیپلز پارٹی برسراقتدار ہے لیکن جب غریبوں کی بستی جل رہی تھی تو صبح تک کوئی فائر بریگیڈ جائے حادثہ پر نہیں پہنچ پائی۔ کیونکہ تعلقہ مہیڑ اور قریبی تعلقہ خیر پور ناتھن شاہ میں فائر بریگیڈ کی گاڑیاں خراب تھیں۔ آگ کی شدت بڑھنے پر صبح تقریبا دوگھنٹے کا سفر طے کرکے قمبر شہداد کوٹ سے فائر بریگیڈ کی گاڑی کو جائے حادثہ پر پہنچایا گیا۔
یہ 9 بچے بھی زمین کا رزق ہوگئے ہیں اور اب واقعہ پر گرد بھی جمنے لگی ہے کیونکہ صوبے کے حکمران اس وقت ملک کے بھی شریک حاکم بن گئے ہیں۔ یہ حاکم گزشتہ ایک ماہ سے بہت مصروف تھے۔ اسلام آباد کے سندھ ہاٶس میں ملک کی تقدیر تبدیل کرنے کے لیے بساط بچھائے بیٹھے تھے۔ مہرے دوڑائے جارہے تھے۔ وہ جو بیمار تھے اور وہیل چیئر پر نظر آتے تھے وہ پوری توانائی کے ساتھ اقتدار کی غلام گردشوں میں دوڑ رہے تھے۔ سندھ کے بچے کبھی بھوک سے مررہے ہیں کبھی علاج نہ ملنے سے مررہے ہیں اور کبھی صاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے موت ان کا پیچھا کرتی ہے لیکن یہاں کے حاکم بادشاہ ہیں اور شاہوں کا کام صرف اپنے اقتدار کو دوام دینا ہے بھوکوں بچوں کا پیٹ بھرنے سے ان کوئی سروکار نہیں ہے۔
میں ابھی کراچی میں ایک جشن دیکھ کر آیا ہوں۔ ایک جماعت کے جیالے ایک سلیکٹڈ کو رخصت کرکے خود سلیکٹڈ بننے پر جشن منارہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور یہ بھی کہہ رہے تھے کہ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے۔ کوئی ان کو سمجھائے کہ یہ جمہوریت کیسا انتقام لے رہی ہے کہ ناظم جوکھیو کا قاتل وی آئی پی پروٹوکول میں اسلام آباد پہنچادیا جاتا ہے اور بھٹو اب تک کیوں زندہ ہے کہ اس کی وادی کے بچے جشن جمہوریت کے دوران جل کر مررہے ہیں۔ ابھی فاتح جمہوریت بلاول بھٹو زرداری کی لندن سے واپسی پر ان کے شایان شان استقبال کی تیاریاں بھی ہورہی ہیں۔ وہ قائد جمہوریت محترم نواز شریف سے ملاقات کا عظیم فریضہ انجام دے کر واپس آرہے ہیں وہی نواز شریف جس کو ان کے والد ضیاء الحق کا بیٹا کہتے تھے اور وہی ضیاء الحق جس نے ان کے نانا کو پھانسی چڑھادیا تھا۔ لوگ درست کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ جیالے اور ان کے رہنما بالکل جشن منائیں۔ لیکن سائیں زرداری ،سائیں بلاول اور سائیں مراد علی شاہ ایک مرتبہ دادو بھی ضرور جائیں جہاں ایک جلی ہوئی جھگی کے باہر بیٹھا انہیں امام الدین نامی ایک شخص ملے گا۔ آپ اسے بتائیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ اس کو یہ بھی کہیے گا کہ آپ نے سلیکٹڈ کو گھر بھیج دیا ہے لیکن پتا ہے وہ آپ کو کیا جواب دے گا۔ امام الدین کہے گا کہ سائیں ! آگ لگی تھی لیکن فائر بریگیڈ نہیں آئی۔ سائیں! اجل آئی تھی اور اسے کے تین بیٹوں اور ایک بیٹی کو ساتھ لے گئی۔