مکہ و مدینہ میں پندرہ سو سال پہلے زمین کے اوپر وحی الہٰی اور شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی و روشنی میں جو روشنی پھوٹی حق ہونے کے ناطے اپنی سنت و دانش کے باعث اسے آزمائش کی راہ سے گزرنا پڑا مکہ مکرمہ کی چھوٹی سی وادی میں واقع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد و جستجو اور انسانیت کی کھوئی ہوئی منزل پانے کے لئے انسانوں کے بس سے باہر کی قربانیوں کی تاریخ رقم کی گئی سیدنا حضرت بلال حبشی رض کا تپتی دھوپ میں انگاروں پر وقت گزارنا تاریخ میں ثبت ہے مرد و خواتین اور بچوں و بچیوں کی بے مثال قربانی امر ہو چکی ہے پھر ہجرت ،امر الٰہی سے انجام پائی ابھی مدینہ منورہ کی نوخیز سوسائٹی میں پاؤں جمانے کے لئے ماہ و سال نہیں گزرے تھے کہ مکہ کے بدنیت اور ہٹ دھرم قریش اسلام مخالف لشکر تیار کرکے مدینہ الرسول پر حملہ آور ہوئے یوں بغیر تیاری و توانائی پہلی لڑائی لڑی گئی تاریخ میں اس پر بے شمار اور مستند ترین مواد موجود ہے،ہم برصغیر کے مایہ ناز و مستند سیرت نگار
جناب علامہ سید سلیمان ندوی کی زبانی اس معرکے کی روداد سنتے ہیں جب قریشی و عربی رسول رحمت کے سامنے جہالت و اندھیروں کے پجاری کھڑے ہوئے علامہ اپنی کتاب رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں معرکہ بدر کے بارے میں بیان کرتے ہیں: دونوں فوجیں میدان میں آکھڑی ہوئیں،ایک طرف ہزار کا لشکر جو پوری طرح لوہے میں غرق تھا اور دوسری طرف تین سو تیرہ مسلمان تھے جن کے پاس پورے ہتھیار بھی نہ تھے،لیکن حق کا زور ان کے بازووَں میں تھا اور دین کا جوش ان کے سینوں میں امنڈ رہا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لڑائی کے میدان سے ذرا ہٹ کر ایک چھپر کے سایہ میں اللہ کے حضور سر جھکائے فتح کی دعا مانگ رہے تھے اور عرض کر رہے تھے کہ خداوند اگر آج یہ تیرے مٹھی بھر پوجنے والے مٹ گئے تو پھر زمین پر تیری پرستش نہ ہو گی۔
اسی لمحے رب کائنات نے فرشتوں کو وحی دے کر بھیجا : “میں تمہارے ساتھ ہوں، تم اہل ایمان کے قدم جماؤ، میں کافروں کے دل میں رعب ڈال دوں گا، سنو! تم گردنوں پر مارو (قتل) اور ان کی پورپور پر مارو۔( سورۂ انفال )
علامہ سید سلیمان ندوی آگے مزید تحریر کرتے ہیں: خدا کی عجب قدرت ہے کہ تین سو تیرہ نفوس نے جو ہتھیاروں سے بھی پوری طرح سجے نہ تھے ایک ہزار کی فوج کو ہرا دیا یہ سچ، جھوٹ، اندھیرے اور اجالے کی لڑائی تھی۔سچ کی جیت ہوئی اور جھوٹ کی ہار،اندھیرا چھٹ گیا اور اجالا چھا گیا۔ مومنین کی پہچان اور آزمائش کا پہلا مرحلہ جس میں وہ کامیاب و کامران قرار پاتے ہیں۔ایسا معرکہ دنیا میں الگ ہی نوعیت رکھتا ہے جب اپنے خون کے رشتوں کے سامنے تلوار اٹھائی جاتی ہے اور مقصد ہوتا ہے تو دین کا دفاع دین کی سربلندی۔سبحان اللہ
بقول اقبال رح
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش
خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن
جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں
جِبریل و سرافیل کا صیّاد ہے مومن
کہتے ہیں فرشتے کہ دِل آویز ہے مومن
حُوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
ماہ رمضان کی 17 تاریخ سنہ 2 ہجری تاریخ اسلام کا وہ عظیم الشان یادگار دن ہے جب اسلام اور کفر کے درمیان پہلی فیصلہ کن جنگ لڑی گئی اور مٹھی بھر مسلمانوں کو کفار کے لشکر پر فتح عظیم حاصل ہوئی۔ مقام بدر میں تاریخ اسلام کا وہ عظیم الشان یادگار دن ہے جب17 رمضان المبارک کے روز اسلام اور کفر کے درمیان پہلی فیصلہ کن جنگ لڑی گئی جس میں کفار قریش کی طاقت کا گھمنڈ خاک میں ملنے کے ساتھ مٹھی بھر مسلمانوں کو وہ ابدی طاقت اور رشکِ زمانہ غلبہ نصیب ہوا جس پر آج تک مسلمان فخر کا اظہار کرتے ہیں۔
اس عظیم الشان معرکہ حق کے بارے میں بےشمار تفصیلات کتابوں میں موجود ہیں کئی معجزوں پر ہم دل و جان سے یقین رکھتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ یہ معجزے صرف یقین والوں کے لئے تھے جن کا ایمان نہیں تھا انہوں نے فرشتوں کو اترتے نہیں دیکھا یہ اطمینان صرف ایمان والوں کے لئے تھا کفار کے دل نے تو بےچینی ہی پائی۔مٹھی بھر خاک نے اہل کفار کو اندھا تو کر دیا تھا لیکن صرف ایمان والے ہی اس معجزے کے ماننے والے ہیں، ایمان و یقین کی قوت و توانائی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والوں کا سرمایہ ہیں بقول مرشد عصر حاضر جناب احمد جاوید :
سیدی ص آپ کی الفت کے مقابل کوئی شئے،
ماں نہیں،باپ نہیں، بیٹے نہیں،بھائی نہیں،
سازوسامان اس وقت بھی طاغوتی قوتوں کی دسترس میں تھا اور آج بھی دنیا اسی روایت کی پاسداری کرتی ہے حق کم وسائل رکھتا ہے اور کفریہ قوتیں ہر ہتھیار سے لیس ہیں۔آج کی دنیا میں اسلامی طاقتیں الحمدللہ ہر قسم کے وسائل سے مالا مال ہیں لیکن:
ہتھیار ہیں اوزار ہیں افواج ہیں لیکن
وہ تین سو تیرہ کا لشکر نہیں ملتا
معرکہ بدر کا پیغام ہے کہ حق و باطل کے درمیان مشترکات نہیں جدید و قدیم کی کشمکش ہوسکتی ہے اندھیرے اور روشنی میں مقابلہ ہوسکتا ہے کیا نفرتوں اور محبتوں کا درمیان کیا مقابلہ ممکن ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اکیسویں صدی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے علمی و فکری اور ذہنی و جذباتی نشوونما کے لئے حق کی بالادستی قائم کرنے کے لئے لمحہ موجود میں حکمت قرآنی و شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کو بروئے کار لایا جائے،تب ہی زندگی میں اطمینان و سکون اور خوشی و راحت نصیب ہوسکے گا عالمی انسانی سوسائٹی اور انسانوں کے عالمی کنبے و خاندان کو۔ معرکہ بدر میں جہاں جنگ کے باوقار اور تعمیری شرائط طے ہوگئے وہی جنگی قیدیوں کے تبادلے کے موقع پر جنگ و جدل سے زیادہ تعلیم و تدریس کی خدمات حاصل کرنے کے لئے دشمنوں کے ساتھ عین میدان جنگ میں استفادہ حاصل کرنے کی لازوال داستان بھی رقم ہوئی۔