ایک دفعہ کسی میراثی کی اپنے محلے کے دوسرے شخص کے ساتھ لڑائی ہو گئی بات تو تکرار سے آگے بڑھ کر ہاتھا پائی تک جا پہنچی میراثی جیسے ہی اپنے منہ پر تھپڑ کھاتا تو دو قدم دور ہٹتے ہوۓ یہ کہتا کے اگر اب مجھے مارا تو انجام اچھا نہیں ہو گا ابھی اس کا یہ فقرہ مکمل بھی ہونے نہیں پاتا تھا کہ ایک دوسرا تھپڑ اس کا گال لال کر جاتا جب میراثی کی اچھی خاصی درگت بن گئ اور لوگوں نے بیچ بچاؤ کروا دیا تو میراثی کراہتا ہوا اٹھا اور بولا تیری قسمت اچھی تھی جو لوگ آ گئے ورنہ میں آج تجھے وہ سبق سکھاتا کہ تو ساری زندگی یاد کرتا ملک میں پچھلے کئی دنوں سے پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کی حکومت کے مابین بھی کچھ اسی قسم کی کھینچا تانی چل رہی تھی جو وزیر اعظم شہباز شریف کی صورت میں بڑی تبدیلی کا سبب بنی۔
نئے وزیر اعظم نے آتے ہی بالکل میراثی کے مخالف بندے والا کردار ادا کرتے ہوۓ ایک دم پینشن اور تنخواہوں میں اضافہ کر دیا ہے جس سے عوامی حلقوں میں ایک اعتماد کی فضا قائم ہوتی نظر آ رہی ہے شہباز شریف چونکہ ایک تجربہ کار اور زیرک سیاست دان ہیں اس لیے انھوں نے مہنگائی کے طوفان کو دیکھتے ہوۓ بجٹ کا انتظار کیے بغیر فوراً چوٹ کرنے کی کوشش کی ہے تا کہ لوگوں کو کچھ ریلیف دیا جا سکے دوسری طرف تحریک انصاف کے حامی اس بات پر منحصر نظر آتے ہیں کہ کپتان قومی خزانے میں اربوں ڈالر چھوڑ کر گیا ہے اگر قومی خزانے میں اربوں ڈالر موجود بھی تھے تو وہ میرے آپ کے یا عوام کے کس کام آ رہے تھے کیا پاکستانی عوام اس سے حظ اٹھا پا رہے تھے اس خزانے کی مثال تو اس کروڑ پتی باپ کی طرح ہے جو خود تو ہر قسمی لطف اٹھاۓ لیکن اپنی اولاد پر چونیّ خرچ کرنے کا بھی روادار نا ہو اس تناظر میں نئے وزیر اعظم نے ایک اچھی ابتداء کی ہے اگر بہتر پالیسی کیساتھ مسلم لیگ نون یہ ایک سال گزارنے میں کامیاب ہو گئی تو گرینڈ الیکشن میں تحریک انصاف کے لیے اس کی دم کو ہاتھ لگانا بھی مشکل ہو جائے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے نئ ٹیم کو عوامی اعتماد حاصل کرنے کے لیے قلیل مدت میں زیادہ ڈیلیور کر کے دکھانا ہو گا پچھلی حکومت کی تقریباً چار سالہ اور نئ حکومت کی یہ ایک سالہ کارکردگی ہی اگلے الیکشن کا حتمی فیصلہ کرے گی تحریر کے شروع میں دی گئ مثال کے مطابق تحریک انصاف نے اپنے تقریباً تقریباً چار سالہ دور میں صرف میراثی کی طرح بڑھکیں ہی ماری جس کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان سر سے بھی اوپر نکل گیا تحریک انصاف نے کسی غیر ملکی طاقت کا نہیں بلکہ اپنی مجموعی کارکردگی کا نتیجہ بھگتا ہے اب انہیں چاہیے کہ خاموش اپوزیشن کی طرح بیٹھ کر اگلے الیکشن کا انتظار کریں اور یہ بھی دیکھیں کے عوام کو کس قسم کے کاموں کی ضرورت ہوتی ہے ان کے مسائل کیا ہیں اور وہ حل کیے کیسے جاتے ہیں بھاشن تو مذہبی لیڈر بھی اچھا دے لیتے ہیں سیاست دان کا کام تو عوامی مسائل کو حل کرنا ہے جس کے لیے نئی حکومت کو بھی سخت محنت کرنا ہو گی کیونکہ حکومت نئی لیکن ان کو درپیش چیلنجز وہ ہی دہائیوں پرانے ہیں۔