جس طرح ہر نیکی دوسری بڑی نیکی کو کھینچ لاتی ہے بالکل اسی طرح ہر برائی دوسری اور نسبتاً بڑی برائی کے لئے راہ ہموار کرتی ہے۔ شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے، انسان کے ساتھ نفسیاتی کھیل بھی کھیلتا ہے، اسے یک دم بڑی برائی کی دعوت نہیں دیتا بلکہ طفلانہ قدم طے کراتا کراتا پستی کے اندھے کنواں تک پہنچا دیتا ہے۔
یہ تمہید اس لئے باندھی جا رہی ہے کہ گزشتہ دنوں ملک کی صف اول کی اور کراچی کی معروف درسگاہ میں ایک رے پارٹی کا اہتمام ہوا جس میں سرعام منشیات کا استعمال، نیم برہنہ لباس اور مزید برآں ہم جنس پرستی کی عالمی تحریک ایل جی بی ٹی کے جھنڈے اٹھا کر اسکی نمائندگی و تائید کی گئی۔
یہ خبر پڑھ کر دل دہل گیا کہ ایک تعلیمی ادارے میں یہ اخلاق سوزی۔ کہاں ہیں ادارے کے منتظمین اور کہاں ہیں وہ والدین جن کی اولادیں تباہی کے راستے پر دوڑ رہی ہیں، اور سب سے بڑھ کر کہاں ہے حکومت؟ ریاست کی حیثیت افراد کے لئے ماں کی سی ہوتی ہے جو نہ صرف معاشی و سماجی ضرورتوں کی ضامن بلکہ ملک و ملت کی اخلاقی قدروں کی بھی ذمہ دار ہوتی ہے مگر افسوس ہمارے ہاں تو حکومت بس ایک اکھاڑے میں تبدیل ہو کر دھینگا مشتی میں مصروف ہے باقی افراد جائیں بھاڑ میں۔ صرف ایک جماعت اسلامی کے عہدے داروں نے اس قبیح حرکت کی مذمت کی اور اسلامی جمعیت طلبہ نے جامعہ کے باہر احتجاج بھی کیا۔
کچھ عرصہ سے اسکولوں کے اندر میوزیکل فیسٹیولز کا انعقاد زوروں پر ہے، اہل دانش نے اس کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش بھی کی کہ یہ ہماری تہذیب کے زوال کا آغاز اور نسل نو کو بے حیائی کے سمندر میں دھکیلنے کی سازش ہے مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز۔ کوئی شنوائی نہ ہوئی پھر وہ آواز بھی معدودے چند کے کسی نے نہ اٹھائی، والدین بھی عموماً آنے والے طوفان سے غافل ہی ہیں۔ لیکن اب پانی سر سے اوپر ہو چکا ہے، اسکولوں میں جس برائی کے بیج بوئے جا رہے ہیں اسکی فصل ابھی سے یو نیورسٹیز کالجز میں سر اٹھانے لگی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اور وہ بھی تعلیمی اداروں میں جو تربیت کے مراکز ہیں وہاں ہم جنس پرستی جیسے قبیح عمل کی یہ پذیرائی ناقابل برداشت ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس پر لوط علیہ السلام کی قوم کو بدترین عذاب دیا گیا۔ یہاں کچھ تذکرہ اس قوم کا بھی ہو جائے۔
قوم لوط کا تذکرہ قرآن میں 17 جگہ آیا ہے، یہ قوم سدوم و عمورہ کے علاقے میں بحر مردار کے کنارے آباد تھی اور پانچ چھ بڑے بڑے شہروں پر محیط تھی ۔ دیگر برائیوں کے ساتھ یہ قوم اغلام بازی یعنی ہم جنس پرستی کی موجد تھی۔
جب ان کے اندر بدفعلی بڑھ گئی تو اللہ رب العالمین نے ابراہیمؑ کے بھتیجے حضرت لوطؑ کو اس قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا تو انہوں نے قوم کو اس برے فعل سے روکا اور اللہ رب العالمین کا تعارف کروایا مگر ان کی شرارت اور سرکشی ہی بڑھی اور کہنے لگے اگر سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ۔ اس وقت لوطؑ نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار فساد کرنے والی قوم کے مقابلے میں میری مددفرما۔ اللہ رب العالمین نے دعا قبول کی اور قوم پر تین عذاب مسلط کر دیئے۔ سورۃ الحجر کی آیت نمبر 83 اور 84 میں ذکر ہے پس سورج نکلتے نکلتے انہیں ایک بڑے زور کی آواز نے پکڑ لیا۔ بالآخر ہم نے اس گہر کو اوپر تلے کر دیا اور ان لوگوں پر کنکر والے پتھر برسائے۔ (القرآن)
اللہ رب العالمین نے قوم لوط کی بے حیائی کی وجہ سے ایسا عذاب دیا کہ کسی امت کو بھی وہ عذاب نہیں دیا۔ اللہ کا غضب نشان زدہ پتھروں کی صورت میں آیا۔ اسی لیے حدیث پاک میں رقم ہے کہ جسکو بھی قوم لوط جیسا عمل کرتے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو (ترمذی)۔ ایک روایت تو یہ بھی ہے کہ جو شخص چوپایہ سے بدفعلی کرے اس کو اور جانور دونوں کو قتل کر دو۔ (ابودائود)،ان تنبیہات کے بعد اب کونسی نصیحت ہو گی جو اثر کرے گی۔
ہمارے ملک میں پچھلے کچھ عرصے سے یہ ملعون عمل کرنے والے دبی دبی آواز اٹھا رہے ہیں، خواتین مارچ میں اسکی تائید میں پلے کارڈز اٹھائے جانا، حکومتی سطح پر ٹرانسجینڈر ایکٹ جیسے متنازعہ قوانین کا پاس ہونا اور اب تعلیمی اداروں میں ان کی محافل کا انعقاد، یہ سب اس بات کا مظہر ہے کہ یہ تحریک پس پردہ ہمارے ملک میں کار فرما ہے اور اپنی جڑیں گہری کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
خدارا اپنی آنکھیں کھولئے، برائی کو دیکھ کر اپنے بس پڑتے اسکی روک نہ کرنا بڑی برائی ہے، ایسے شخص کو گونگا شیطان کہا گیا ہے اور پھر یہ تو ہماری اور آنے والی نسلوں کی عاقبت کی بات ہے، ہم کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔ ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ ایسی اخلاق باختہ حرکتوں کا نوٹس لے اورتعلیمی اداروں میں ایسی محافل پر پابندی لگائے خصوصاً متعلقہ جامعہ کی سرزنش کرے۔ برائی اور گناہ کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کے لئے اپنی آواز بلند کیجئے شاید کہ نصیحت نافع ہو وگرنہ اللہ کے ہاں معذرت تو پیش کر سکیں گے کہ ہم برائی مٹانے والوں میں شامل تھے ۔