اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دُوسرے اعداء کو خوف زدہ کرو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا ۔ (سورہ انفال آیت 60)
15 فروری 1989 کو جب آخری روسی فوجی افغانستان سے نکل رہا تھا تو اس کے وہم گمام میں بھی نہ ہوگا کہ سرخ ہاتھیوں کی یہ فوج ایک ایسی فوج کے ہاتھوں شکست کھائے گی جو کہ جدید عسکری ٹیکنالوجی سے بے بہرہ تھی جدید تعلیم و ترقی جن کو چھوکر بھی نہیں گزری اور دونوں فریقوں کے درمیان طاقت کا ایک ہولناک توازن بھی تھا مگر انہوں نے ایک سبق پڑھا تھا کہ مزاحمت میں زندگی ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب دالبدین چاغی میں ہندستان کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکوں کی تیاریاں جاری تھیں امریکی سامراج، برطانیہ بوڑھا شیطان اور اس کے چیلے ایڑی چوٹی کا زور لگارہےتھے کہ پاکستان اس تجربے سے باز رہے انہی دنوں کوئٹہ میں سرینا ہوٹل میں ان فلموں کی نمائش ہوئی جو ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کے ایٹمی حملوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور ان لوگوں پر بنائی گئی تھی جن کی زندگیاں ایٹمی تابکاراثرات سے متاثر ہوئی تھیں فلم ختم ہوئی تو شایدہی کوئی آنکھ ایسی ہوکہ جو اشک بار نہ ہو، ان فلموں کی نمائش کے بعد جاپانی سفیر نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا لیکن جب کسی پوچھنے والے نے اس سے سوال کیا کہ اگر اس وقت جاپان بھی ایک ایٹمی قوت ہوتا تو کیا وہ امریکہ کی اس ایٹمی جارحیت کا نشانہ بنتا؟ سفیر نے سرجھکا کر کئی بار کبھی نہیں -کبھی نہیں کہا۔
26 دسمبر 1991میں سویت یونین روس کی پندرہ ریاستیں پندرہ آزاد ملکوں میں تبدیل ہوگئیں یہ پندرہ ریاستیں یورپ میں واقع تھیں انہی ریاستوں میں یوکرین بھی تھا آزادی سے پہلے سویت یونین کے ایٹمی ہتھیاروں کا ایک بہت بڑ ا حصّہ یہاں تھا جو آزادی کے بعد یوکرین کی جھولی میں پکے ہوئے پھل کی طرح آگرا اس طرح یہ ملک دنیاں کا تیسرا ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ملک بن گیا۔ ان پندرہ ریاستوں کے سامنے یورپ کی چکاچوند تھی جو ان کی نہ صرف آنکھ کو خیرہ کررہی تھی بلکہ ان کی عقل کو بھی خیر کررہی تھی۔ یورپ سے سابق سویت یونین کا بستر گول ہوچکا تھا۔ 5 دسمبر 1994 قازقستان، بیلا روس اور یوکرین، ان ریاستوں کے لیے بدبختی کا دن تھا جب تین عالمی طاقتوں نے ان کے خلاف ایک نہایت پر فریب چال کھیلی برطانیہ، روس اور امریکہ نے ان ممالک کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس میں یہ وعدہ کیا گیا کہ ان ممالک کے تحفظ کے زمّہ دار برطانیہ، روس اور امریکہ ہونگے اور ان ممالک سے یہ کہا گیا کہ یہ صرف اپنی فلاح و بہبود پر اپنی تمام تر توجہ دیں ان تمام باتوں کے عوض صرف ان کے پاس موجود ایٹمی ہتھیار روس کے حوالے کرنا تھے تاکہ ان ہتھیاروں کو تلف کیا جاسکے بس اس دن سے ان ریاستوں کے برے دن شروع ہوگئے آج امریکی اتحادی ممالک کی تعداد تیس ہوچکی ہے اور اس وقت صرف سترہ تھی۔
یوکرائن پر روسی حملے سے پہلے پندرہ آزاد ریاستیں یہی سمجھتی رہیں کہ اگر کسی ملک نے ان کے خلاف جارحیت کی تو نیٹوں ممالک اور امریکہ ان کی مدد کو آئیں گے یہی فریب تھا جس کی وجہ سے ان ریاستوں نے فلاحی ریاست بننے کے لیے اپنا تمام سرمایا لگادیا اور دوسری طرف توجہ نہ کی آج یوکرین اکیلا ہے اور دنیا سے سوال کررہا ہے کہاں ہیں تمہارے وعدے ! اس جنگ کے بعد شاید ہی کبھی پھر یوکرائن ویلفئیر اسٹیٹ بننے کا سوچے گا دوسری طرف جب ادھر دیکھیں تو روز بروز غلامی کی زنجریں پاکستان پر کسی جارہی ہیں اور پاکستان پر حکومت کرنے والا طبقہ جو کبھی پردے کے پیچھے سے حکومت کرتاہے اور کبھی پردے کے باہر آکر حکومت کرتاہےاس کو کڑے سودی قرضوں کی قسط ہاتھ آجائے تو یہ خوشی سے رقص کرنے لگتے ہیں اور اس کے پاس بس عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے ایک ہی سوال ہے جیسے کوئی ہیروئن کا نشہ کرنے والاجب اسے نشہ نہیں ملتا تو وہ کہتاہے کہ بابا بس ایک پڑیا ہی دے دے۔ ملک کے سیاسی بازیگر اور شعبدہ باز اپنی شعبدہ بازیاں دکھارہے ہیں یہ وہی سازشی ٹولے ہیں کہ جن میں سے کسی کے دامن میں پاکستان کے ایک بازو کو جدا کرنے کا سیاہ کارنامہ موجو د ہے، کسی کےدامن میں سیاہ چن کسی کے دامن میں کشمیر یوں کے لہو کے سودے بازی کادھبہ لگا ہوا ہے بار بار چینلز پر اور اخباروں میں بیان دینے سے عدم تحفظ کا احساس مزید گہرا ہورہا ہے کہ ہمارے ایٹمی اثاثے مضبوط ہاتھوں میں ہیں؟ ہر سمجھدار انسان یہ سمجھتاہے کہ کشکول جن ہاتھوں میں ہو، وہ مضبوط ہاتھ نہیں ہوتے بلکہ جن ہاتھوں میں شمشیر ہوتی ہے وہ ہاتھ مضبوط ہوتے ہیں۔
9مارچ 2022کو ایک سپر سانک ایٹمی ہتھیار لے جانے کی اہلیت رکھنے والا میزائل سورت گڑھ سے پاکستان کی طرف فائر کیا گیا جو کہ پاکستان کی سرحد کے 124 کلو میڑ اندر آکر گرا یہ ایک کھلی جارحیت تھی جسے ہندوستان نے تکنیکی غلطی قرار دیا اور اس غلطی کی تحقیقات کا حکم دے دیا اور ہم نے اچھے بچّوں کی طرح ان کی بات کو تسلیم کرلیا یہ سلسلہ وار غلطیا ں ہیں اس سے پہلے دو آبدوزیں پاکستان کی سرحدوں کے اندر سیر کرنے آگئیں جس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا، کیا پاکستان کا کوئی سپر سانک میزائل اسی طرح سے غلطی سے بھارت کی سرحدوں کے اندر جاگرتا تو بھارت اس غلطی کو ٹھنڈے ٹھنڈے برداشت کرلیتا؟ اس سے زیادہ شرم کی بات اور کیا ہوگی کہ بھارت کے جاسوس کلبھوشن کو اپیل کا حق دینے کے لیے قومی اسمبلی میں قانون میں بھی ترمیم کرنا بھی گوارا کرلیا گیا ابھی نندؐن جو کہ شاید پاکستان کی سیر کرنے آیا تھا اس کو بھی جذبہ خیر سگالی کے تحت میزبانی کرکے واپس کردیا گیا آخر اپنے ایسا دشمن جو کہ ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اس پر اتنی فیاضی اور کرم نوازی کیوں ہورہی ہے؟ آج ہندستان جتنا شدت پسند ملک بن چکا ہے اتنا یقینا ماضی میں نہیں تھا بلکہ اس شدت پسندی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے یہ شدت پسندی سے جہاں ہندستان میں موجود مسلمانوں کا مستقبل خطرے میں ہے وہاں یہ بھی عیاں ہے کہ پاکستان ان مسلمانوں کی وکالت کرنے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کررہا ہے جس کی وجہ سے بھارت کے مسلمانوں کا اعتماد پاکستان پر سے اٹھتا جارہا ہے ان وجوہات کی بنا پر پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدیں خطرے میں ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم یوکرائن کی طرح اپنے دشمنوں کی طرف سے آنکھیں موندے فلاحی ریاست بننے کے خواب دیکھنے لگے ہیں ۔