ملک میں تبدیلی کی لہر چل پڑی ہے۔ مرکز میںعمران خان کے خلاف عدم اعتماد پیش کر دی گئی۔ پنجاب اسمبلی میں عثمان بزدار کے خلاف بھی عدم اعتماد پیش کر دی گئی۔ مرکز میں31۔ مارچ کوتقاریریں اور3 اپریل کو ووٹنگ میں عدم اعتماد کا فیصلہ ہو جائے گا۔ عمران خان کے اپنے ہی لوگ بھی ان سے ناراض ہیں۔ اتحادی ایک ایک کرکے عمران خان کا ساتھ چھوڑ کراپوزیشن میں جارہے ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی”باپ“ ساتھ چھوڑ گئی۔ اختر مینگل پہلے ہی چھوڑ گئے تھے۔ شاہ زین بگٹی بھی اپوزیشن کے ساتھ مل گئے۔ عمران خان نے متنازع عثمان بزدار وزیر اعلیٰ پنجاب اسمبلی سے استعفیٰ لےکر اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی کو نیا وزیر اعلیٰ پنجاب نام زد کر دیاہے۔ یہ بات تو ناراض ارکان وزیر اعظم عمران خان کو پہلے سے کہتے رہتے تھے مگر عمران کو ضد لے بیٹھی۔ لگتا ہے کہ اپنی ڈوبتی نیّابچانے کے لیے دہشت گرد الطاف حسین کی بقایاجات ایم کیو ایم کو سندھ کی گورنر شپ اور ایک مزیدوزارت پر رام کرتے ہیں یا اِن کے مطالبات کہ ان کے مسنگ پر سن کی باز یابی، ان کے مقدمات ختم کرنا اور سیل دفاتر کھولنے کی ڈیمانڈ پوری کرتے ہیں۔ جاتے جاتے عمران خان نے ایک قطری خط کی طرح ایک خط اپنے جلسے میں لہرا کر کہا کہ مجھے ہٹانے کے لیے عالمی سازش ہو رہی ہے۔ مجھے لکھی ہوئی دھمکی ملی ہے۔ مگر میں آخر ی دم تک مقابلہ کروں گا۔ ڈاکوو¿ں کو این او آر نہیں دوں گا۔ دیکھتے ہیں مرکز اور پنجاب اسمبلی میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے کتنے ممبران اسمبلی کو عمران خان توڑ کر اپنے ساتھ ملاتے ہیں، بظاہر تو نہیں لگ رہا ۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی میں بھی ترین گروپ عمران خان کا ساتھ دیتا ہے یا نہیں۔ اسکا بھی ابھی فیصلہ ہونا ہے۔
ویسے لگتا کہ عمران خان نے سمجھ لیا ہے کہ ان کی حکومت اب مزید نہیں چل سکتی تو اسی لیے انہوں نے پاکستان کے کئی شہروں میں حکومتی اخراجات پر جلسے کیے۔ اس کے مقابلے میں نون لیگ، پیپلز پارٹی اورمولانافضل ا لرحمان نے بھی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جلسے اور ریلیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اسلام آباد میں عمران خان کے جلسے کے بعدپی ڈی ایم کا رات گئے تک جلسہ جاری رہا۔ جماعت اسلامی نے ملک میںمہنگاہی اور عمران خان کے خلاف ایک سو ایک جلسوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔کل ہی دیر میں ایک بہت بڑا جلسہ ہوا۔ سراج الحق نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی حکومت کا فارمولا اکسیر نہیں ہوگا۔ عوامی حکومت کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم کو31مارچ تک استعفیٰ دے دینا چاہےے۔ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی پر واضح کر دیا کہ جماعت اسلامی کسی کے ساتھ نہیں۔ ظالموں سے جان چھڑا نے اور اسلامی فلاحی پاکستان کی بنیاد رکھنے کا وقت آ گیا ہے۔
نواز شریف کو جب سپریم کورٹ نے تا حیات سیاست سے نا اہل قرار دیا تو نواز شریف نے ملک بھر میں فوج اور عدلیہ کے خلاف جلسے اور ریلیاں نکالی تھیں۔ یہاں تک کہ غدار وطن شیخ مجیب کا بھی نام لیا تھا کہ ووٹ کو عزت نہیں دی گئی تو ملک ٹوٹ کیا۔ مجھے بھی نکالا گیا تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ حالاں کہ خودنواز شریف نے عدلیہ سے درخواست کی تھی کہ آف شور کمپنیوں کے معاملہ کو سن کر پانی کا پانی اور دودھ کا دودھ کر دیں۔ پریشانی کی حالت میں دو دفعہ الیکٹرونک میڈیا اور ایک دفعہ پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جناب اسپیکر یہ ہیں میری آمدنی کے ثبوت ۔ جب نیب عدالت نے ثبوت مانگے تولندن کے مے فیئر فلیٹس کی منی ٹرائیل نہ پیش کرسکنے پر اور جعلی ڈیڈ پیش کرنے پر کرپشن میں جیل کی سزا پائی۔ نون لیگ فوج پر تنقید کرتی رہی ہیں کہ وہ منتخب وزیر اعظموں کو پانچ سال پورے نہیں کرنے دیتی۔ مگر پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے پچھلے دور میں پانچ پانچ سال پورے کیے تھے۔ اسی طرح اچھا ہوتا کہ تحریک انصاف کو بھی پانچ سال پورے کرنے دیتے۔ مگر عمران خان کے مطابق کرپشن کیسوں کا فیصلہ جیسے جیسے قریب آ رہا ہے نون لیگ اور پیپلز پارٹی میری حکومت کو ختم کرنے اور اقتدار پر قبضہ کر کے نیب، عدلیہ اور فوج سے اپنے بدلے چکائیں گے۔ آج میں این آر او دے دوں اور کرپشن کے مقدموں سے پیچھے ہٹ جاﺅں تو یہ میرے خلاف اپنی مہم ختم کر دیں گے۔ مگر حکومت یا میری جان بھی چلی جائے میں ان کے کرپشن کے پیسے وصول کر کے ہی چھوڑوں گا۔
اگر غیر جانبداری سے سیاسی پارٹیوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو اس وقت ملک میں سیاست دانوں نے سیاست کو ایک انڈسٹری کی شکل دے رکھی ہے۔ کروڑوں روپے الیکشن جیتنے پر لگاتے ہیں۔ الیکشن جیت کر اقتدار میں آکر اربوں کی کرپشن کر تے ہیں۔ جب کرپشن پکڑی جاتی ہے تو اسی کرپشن کے پیسوں سے انصاف خرید لیتے ہیں۔ جیسے نون لیگ والے جسٹس قیوم کو فون کال کرکے مرضی کی سزا دینے کی ہدایات دیتے ہیں۔ نواز شریف کو کرپشن میں سزا دینے والے جج کی مسجد نبوی میں حسن اور حسین نواز کے ساتھ رشوت کی ویڈیو جاری ہو ئی تھی۔ اسی طرح زرداری نے کرپشن کا ریکارڈ ہی نے جلوا دیا تھا۔ نیب نے کہا تھا کہ فوٹو اسٹیٹ پر مقدمہ نہیں چلا سکتے اور مقدمے داخل دفتر کر دیے گئے تھے۔ مولانا فضل الرحمان پر ڈیزل کا الزام نون لیگ کے لوگوں نے لگایا۔ ڈکٹیٹرپرویزمشرف دور میں زمین حاصل کرنے کا بھی الزام لگا تھا۔ مولانا فضل الرحمان سے ایک ٹی وی انٹر ویو میں معلوم کیا گیا جس مکان میں انٹر ویو ہو رہا ہے یہ کہاں سے آیا تو مولانا نے کہاتھا چھوڑو یار یہ تو ایک دوست نے تحفہ میں دیا ہے۔
اقتدار کی جنگ میں اپوزیشن پاکستان کی اساس کی بات نہیں کرتی۔ بس کرسی کی بات کرتی ہے۔ عمران خان نے بھی بات تو مدینہ کی اسلامی ریاست کی کی مگر عملاً سود کو ختم نہیں کیا۔ بلاسود بینکاری کو رائج نہیں کیا۔ قاضی کورٹ قائم نہیں کی ۔ شراکت کی بنیاد پر معیشت کو استوار نہیں کیا۔ عملاً اسلامی نظام حکومت کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔عمران کے دور میں آٹا، چینی، پٹرول اور رنگ روڈ میں کرپشن کی باتیں ہوئیں۔ انٹر نیشنل ٹراسپرنسی نے بھی کرپش عروج پر ہونے کی رپورٹ جاری کی۔ جبکہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان لا الہ الا اللہ کے نام پر حاصل کیا تھا۔
ذرائع یہ سوچتے ہیں کہ عمران خان کے بعد کیا یہ آزمائے ہوئے لوگ ہی اقتدار میں آئیں گے؟ اگر ایسا ہوا تو ملک مزید تباہی کی طرف جائے گا۔ پیپلز پارٹی روٹی کپڑامکان نہ دے سکی۔اُلٹازرداری مسٹر ٹین پرسنٹ مشہور ہوئے۔ نواز شریف پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کی بجائے خود امیر سے امیر تر ہو گئے۔ عمران خان بھی کچھ نہ دے سکا۔ سیاست دانوں کی ساری پھرتیاںان کے ذاتی مفادات کے ارد گرد کھومتیں ہیں۔ ان حالات میں سیاست کی فیلڈ میں جماعت اسلامی ہی رہ جاتی ہے۔ جماعت سیاست کو عبادت سمجھتی ہے ۔ یہ جماعت کرپشن فری ہے۔ یہ جماعت قائد اعظم کی حقیقی جان نشین ہے۔ یہ جماعت مورثی نہیں۔ اس جماعت کے اندر جمہوریت ہے۔ یہ جماعت پورے پاکستان کی جماعت ہے۔ اس لیے اب موجودہ مشکلات کاحل صرف جماعت اسلامی ہے۔