صبح ای میل کھولی تو بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے یوم پاکستان کی تقریب میں شرکت کے لئے بھیجا گیا دعوت نامہ موجود تھا۔ اس ای میل کے نیچے ایک اور ای میل میں ایک عالمی جریدے کی جانب سے دس بڑی خبروں کی ای میل موجود تھی۔ ان خبروں میں ایک خبر تھی کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں چند طلبا کو حبیب جالب کی نظم پڑھنے پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ خبراس بھارت سے متعلق تھی جس کولیبرل ڈیموکریسی اور سیکولرازم کاعلمبردارقرار دینے کے لئے ہمارے ہاں کچھ لوگ زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ صرف یہیں اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ تقسیم ہند اور قیام پاکستان پر کف افسوس ملی جاتی ہے۔ دو قومی نظریے کے خلاف باتیں کی جاتی ہیں، پاکستان اور بھارت کے درمیان لاکھوں جانوں کی قربانی سے بننے والی سرحد کو محض لکیر قرار دیا جاتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح سمیت دیگر بانیان پاکستان کی جدو جہد کا تذکرہ کرتے وقت ایسے لوگوں کی زبانیں پیراکسز کا شکار ہو جاتی ہیں۔
پاکستان میں آزادی کا یہ عالم ہے کہ بانیان پاکستان اور قیام پاکستان کے خلاف باتیں کرنے والے بھی آزادی سے گھومتے پھرتے ہیں جبکہ مودی کے “آزاد، لبرل اور سیکولر” بھارت میں اس وقت بھارت میں اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ ہے۔ کسی کو مذہبی آزادی حاصل نہیں۔ بھارتی عدالتیں جو ایک طویل عرصے تک سیکولرازم کو سہارا دیتی رہیں آج وہ بھی اس کا بوجھ کو اٹھانے سے قاصر دکھائی دیتی ہیں۔ جس ایک تازہ مثال یہ ہے کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ چونکہ حجاب پہننا اسلام کا لازمی حصہ نہیں، اس لیے اس پر پابندی درست ہے۔ یہ ایک مثال ہے بھارت میں گاؤ کشی اور دیگر حوالوں سے مسلمانوں پر روا رکھے جانے والے مظالم کی فہرست طویل ہو چکی ہے۔ کشمیر کی صورت حال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
اس منظر نامے کو قائد اعظم اور ان کے عظیم ساتھی دہائیوں قبل ہی محسوس کر چکے تھے۔ اس لئے دو قومی نظریہ پیش کیا گیا اور مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک کے حصول کی بات کی گئی۔ موجودہ صورت حال کے تناظر میں خود مودی نے دو قومی نظریے اور قائد اعظم کے حق میں گواہی دے دی ہے کہ آپ کا دو قومی نظریہ اور الگ وطن قائم کرنے کا فیصلہ بالکل درست تھا۔ ہمیں یقیناً کسی موذی کی گواہی کی ضرورت نہیں ہم روز اوّل سے جانتے ہیں ہمارے قائدین کا الگ وطن کا فیصلہ سو فیصد درست تھا۔ گواہی کا تذکرہ ان لوگوں کے لئے کیا جو اس کا انتظار کرر ہے تھے۔
بات تھوڑی لمبی ہوگئی ہے۔ میں سب سے پہلے آپ کو یوم پاکستان کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اس وقت پاکستان کے لئے پرفخر لمحہ ہے کہ یوم پاکستان کے موقع پر اسلام آباد میں او آئی سی کا اجلاس بھی منعقد ہو رہا ہے۔
تئیس مارچ سنہ 1940 میں ہمارے عظیم بزرگ لاہور کے منٹو پارک میں اکٹھے ہُوئے تو سارے متحدہ ہندوستان کی نگاہیں اِس میدان پر جم سی گئی تھیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کی پُرشکوہ قیادت میں جس تاریخی جذبے اور لازوال جنوں کا اظہار کیا گیا تھا، اسی تُند جذبے نے صرف سات سال کے قلیل عرصے میں ناممکن کو ممکن بنا کر رکھ دیا تھا۔ ایک خواب کو مادی اور جسمانی شکل میں ڈھال دیا گیا اور اس کا نام ’’پاکستان‘‘ رکھا گیا۔
قائداعظم کی اور ان کے رفقا کی قیات میں پاکستان کی قرارداد کو حقیقت کی شکل دی گئی۔ واہ، کیا بے مثال کامیابی تھی وہ اور کیا ہی باکمال لوگ تھے وہ! وہ عظیم المرتبت قائدین جنہوں نے ’’قراردادِ لاہور‘‘ ڈرافٹ کی، لکھی، پیش کی اور پھر اکژیتی آوازوں سے منظور بھی کی۔ یہ سب غیر معمولی لوگ تھے۔ بڑے ہی شاندار اور قوم کے اجتماعی مفادات پر جانیں نچھاور کر دینے والے۔ وہ سب آج بھی ہمارے دلوں اور دماغوں میں بستے ہیں۔ اُن کی یاد کسی انمٹ خوشبو کی طرح رواں لمحوں میں بھی ہماری یادوں میں پوری طرح رچی بسی ہے۔یہ محو ہو سکتی ہے نہ معدوم۔ یوم ِپاکستان کے موقع پر قائد اعظم کی یاد تو ایک بار پھر دلوں کو نیا ولاولہ اور جوش دیتی ہی ہے مگر اُن کے ساتھ 23مارچ کے اجتماع میں شریک وہ تمام بانیانِ پاکستان جنہوں نے ’’قراردادِ لاہور‘‘ عرف ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کی صورت میں پاکستان کی بنیاد رکھی، ہم سب کو عجب خوشی اور مسرت کے احساس سے ہمکنار کرتے ہیں۔
گویا تئیس مارچ کا یہ دن، جسے ہم ’’یومِ پاکستان‘‘ کے نام سے مناتے اور یاد کرتے ہیں، اپنی حیثیت میں بے مثال بھی ہے اور بے نظیر بھی۔ تئیس مارچ کا دن ہو یا چودہ اگست کا یا چھ ستمبر کا، سچی بات یہ ہے کہ یہ ایام ہمیں اِک ولولہ تازہ دیتے ہیں۔ ہمیں اپنے ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔
ہمارے پاس قائد اعظم کے ارشادات کی شکل میں پہلے سے روشن بیانیہ موجود ہے جسے پھر سے سامنے لا کر پاکستان کا چہرہ روشن تر بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنے وطن کی مضبوطی واستحکام اور اتحاد و یکجہتی کے لیے اپنے اعمال کا حساب اپنے سامنے رکھنا ہے اور دل و جان سے استحکام پاکستان کے لئے کام کرنا ہے کیونکہ ہماری تمام شان و شوکت اور رفعتیں صرف پاکستان سے ہیں۔