اطلاعات کے مطابق اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی گئی ہے۔، قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے حق میں اگر 172 ووٹ پڑگئے تو عمران خان کو وزیراعظم ہاو¿س سے رخصت ہونا پڑے گا۔ حزب اختلاف کو اُمید ہے کہ ان کی لائی گئی تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں باآسانی کامیاب ہوجائےگی اور 172 سے زائد ووٹ حاصل کرلے گی۔
خیال رہے کہ پاکستانی پارلیمانی تاریخ اس قسم کی سیاسی ہلچل سے بھری پڑی ہے اور یہ تیسری بار ہے کہ کسی منتخب وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی گئی ہے۔ اگر تحریک کامیاب ہوگئی تو عمران خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم ہوں گے جوکہ عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے باعث ایوان وزیراعظم سے رخصت ہوں گے۔ اس سے قبل پاکستان کے2 منتخب وزرائے اعظم اپوزیشن کی تحریک عدم اعتمادکا سامنا کرچکے ہیں اور دونوں مرتبہ ہی تحریک ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔
ماضی کے 1989ءمیں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف کیا گیا تھا مگر وہ ناکام رہی۔ اگست 2006 ءمیں سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام رہی تھی۔ قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر چوہدری امیر حسین کے خلاف 2بار تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی، ایک بار جون 2003ءاور دوسری بار اکتوبر 2004ءمیں، وہ دونوں بار بچنے میں کامیاب رہے۔ اس سے 17سال قبل اس وقت کے قومی اسمبلی کے اسپیکر سید فخر امام کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا تھا جس کی حمایت اس وقت کے صدر جنرل ضیا الحق نے کی تھی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی سابقہ وزرائے اعظم کی طرح ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہوتے ہیں یا پھر ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکہ سمیت تمام عالمی طاقتوں کو یہ باور کروانے کے بعد کہ ہم ایک خود مختار ریاست ہیں اور کسی کی بھی ڈکٹیشن پر عمل کرنے کے پابند نہیں تو اس روز سے وزیر اعظم عمران خان کےخلاف ووٹ نو کنفیڈنس کا پینڈورا باکس کھول دیا گیا ہے ۔ اگر وزیر اعظم’ فرینڈز ناٹ ماسٹر‘ کا نعرہ نہ لگاتے تو اپوزیشن کی یہ تحریک کہیں راستے میں دم توڑ جاتی ۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسی مثالیں قائم ہو چکی ہیں کہ جس حکمران نے امریکہ کی مرضی کے خلاف جانے کا ارادہ کیا اسکو گھر جانے کا بندوبست کر دیا گیا۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے روس کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے کی کوشش کی ، امریکہ نے بھٹو کو نہ صرف اقتدار سے بلکہ زندگی سے بھی محروم کر دیا۔ بے نظیر نے اپنے باپ کے قاتلوں سے مفاہمت کی کیونکہ وہ جان گئی تھی کہ دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر نہیں رکھا جا سکتا۔ نواز شریف نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی اور انکی حکومت چلی گئی۔ گزشتہ 70 بر سوں میں و طن عزیز کی داخلی اور خارجی پالیسی امریکہ کی مرہون منت ہی ہے۔
عمران خان کا دورہ روس اور یوکرائن کا تنازعہ سمیت وزیر اعظم کا یورپی یونین اور نیٹو پر سوال اٹھانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ امریکی لابی اس وقت مکمل طور پر پاکستان میں متحرک ہے۔ افغان مسئلے سے پیک کا بہت گہرا تعلق ہے۔ دوسری جانب موجودہ سیاسی جوڑ توڑ اور گرما گرمی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا کہ تحریک عدم اعتماد اپوزیشن نہیں، بین الاقوامی طاقتوں کے کردار کو یوں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ بلاشبہ تحریک عدم اعتماد ایک اسپانسرڈ پلان ہے۔ حکومتی دعویٰ کے مطابق حزب اختلاف 172 ارکان پورے نہیں کر پائے گی اور اس طرح اسے ناکامی کاسامنا کرنا پڑے گا۔ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے پتے اپنے سینے کے ساتھ لگا رکھے ہیں اور وقت آنے پر ظاہر کریں گے۔ بہر حال قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے ساتھ ہی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان باقاعدہ پارلیمانی جنگ کا آغاز ہو گیا ہے۔ مارچ 2021ءمیں عمران خان کو یہ ثابت کرنا تھا کہ ارکان اسمبلی کی اکثریت ان کے ساتھ ہے جبکہ مارچ 2022ءمیں اپوزیشن کو یہ ثابت کرنا ہے کہ ارکان مقننہ کی اکثریت عمران خان کی مخالف ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد میں آرٹیکل 63۔اے کا اطلاق کرتے ہوئے منحرف حکومتی ارکان کو ووٹ دینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تحریک عدم اعتماد کے روز قومی اسمبلی کے ایوان میں حکومت کے متعین کردہ صرف ایک رکن کو شرکت کی اجازت ہوگی۔ توقع رکھی جانی چاہئے کہ تمام مراحل میں برسراقتدار اور اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے جمہوری اقدار اور آئینی اصولوں کی پاسداری ملحوظ رکھی جائے گی۔ افسوس !جمہوری نظام سیاست دانوں کے باہمی اختلافات کا نشانہ بن چکا ہے۔ ہر دوسرے دن حکومت کے جانے کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں، سیاست دان اہم معاملات میں بات چیت کے ذریعے مسائل حل اور اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ قومی سلامتی کے معاملات میں بھی سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود مختلف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتی رہیں۔ پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ نون کی حکومت میں بھی یہی طرز سیاست غالب رہا۔ جبکہ سیاسی رہنماوں کا وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے کے لیے مشکلات کھڑی کرنے میں گذرتا ہے۔ مسلسل بیس سال تک بھی کوئی نظام اگر عوام کے حقیقی مسائل کی نشاندہی اور انہیں حل کرنے میں کامیاب نہ ہو تو پھر سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا نظام میں خرابی ہے یا پھر اسے چلانے والوں میں کوئی مسئلہ ہے۔ دوسری جانب ا سٹاک ایکسچینج کا کیا حال ہے، عوامی مسائل میں کتنا اضافہ ہواہے اس سے کسی کو غرض نہیں۔