میں کون ہوں کیا میری کوئی شناخت ہے؟
کیا میں آزاد ہوں؟
کیا مجھے معاشرے میں عزت حاصل ہے؟
کیا میری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں؟
کیا آج بھی میں مظلوم ہوں؟
یا آج بھی مجھے چودہ سو سال پہلے کی طرح آزادی چاہۓ؟
وہ آزادی جو اسلام سے پہلے تھی جب مجھے زندہ دفن کیا جاتا تھا نہ میرا وراثت میں حصہ تھا نہ حقوق تھے نہ عزت تھی نہ وقار تھا۔ بلکہ میں بکاؤ تھی خریدی اور بیچی جاتی تھی پیدائش پر میرے خاندان کو شرمندگی اٹھانی پڑتی تھی۔ مجھے محفلوں کی زینت بنایا جاتا تھا میں کھیل تھی تماشا تھی تفریح کاسامان تھی میں ستائی جاتی تھی رولائی جاتی تھی یہاں تک کےچاہنے والوں سے تبدیل بھی کی جاتی تھی۔
پھر قسمت بدلی میری آہیں میری دعائيں اس رب نے سن لیں۔ نہ صرف میرے لیۓ بلکہ پوری دنیا کے لیۓ میرے رب نے ایک معتبر صادق وامین محمد ﷺ کو دنیا میں نبی بنا کر بھیجا۔ میرے آقاﷺ نے نہ صرف مجھے حقوق دلوائے بلکہ مجھے میرا مرتبہ بھی حاصل ہوا۔
پھر میں پہچانی جانے لگی پھر میں انمول ہوگئی۔ ماں کی صورت جنت، بہن کی صورت عزت، بیٹی کی صورت رحمت، بیوی کی صورت شریک حیات ہوگئی۔
اور میں پھر سے زندہ ہوگئی۔ مجھے بتایا گیا کہ خود کو چھپاؤ ڈھانپ کے رکھو تاکہ تم پہچانی جاؤ. ہائے میں کتنی خوش قسمت ہوگئی کہ میری بھی اس ظالم دنیا میں پہچان ہوگئی۔
اب میں نگاہ جھکا کر اور سر اٹھاکر چلتی ہوں۔ میرے بھی فرض ہیں۔ پر مجھ پر بھی کچھ فرض ہے۔ میں گھر کی ملکہ ہوں نسلوں کی معمار ہوں۔ اسلام نے مجھے بتایا قرآن نے مجھے سکھایا میں سیپ میں موتی ہوں۔ میں قیمتی ہوں۔
مجھے آزادی اور عزت دینے والا میرا ربّ ہے اور وہ بہتر جانتا ہے کہ کون کس کام کے لیۓ بہتر ہے۔
اس لیۓ میں نہیں کہتی کہ مجھے مرد سے برابری کرنی ہے۔ میں میں ہوں مجھے تو شہزادیوں کی طرح گھروں میں حکومت کرنی ہے میں کمزور نہیں ہوں میں مظلوم نہیں ہوں۔ میں تو وہ مضبوط مخلوق ہوں جس کے ہاتھ میں نہ صرف عورت بلکہ مرد کی تعلیم و تربیت کا بھی زمہ ہے ۔
مجھے تو عادت ہے بھیڑ میں محرم کے حصار میں چلنے کی۔ بھاری چیز اٹھانی ہو تو حق سے کہتی ہوں یہ کام میرا نہیں آپ کا ہے میرے محرم میرے محافظ ہیں مجھے فخر ہے ان پر۔ لیکن مجھے ڈر ہے کہ جس دن مردوں نے اپنے حقوق مانگنے شروع کیۓ تو ان چند مرضی کی عورتوں کا کیا بنےگا؟
کچھ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ عورت تو آج بھی بیچی جاتی ہے قتل کر دی جاتی ہے تیزاب سے جلا دی جاتی ہے۔ آج بھی باپ پہلی اولاد بیٹی ہونے پر سات دن کی بچی پر فائرنگ کر دیتا ہے۔ تین منزلہ عمارت سےچند ماہ کی بیٹی کو پھینک دیا جاتا ہے۔
لیکن اب اس ظلم پر فخر نہیں کیا جاتا اس جرم کو سراہا نہیں جاتا۔
بلکہ اب اسے ظالم کہا جاتا ہے قاتل کہا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بےعزت کیا جاتا ہے سزا کے لیۓپکڑا جاتاہے۔
اس دور کے ظلم وجبر کو دیکھ کر واضح ہوتا ہے کے دین پڑھ کر بندھ کر کے رکھنے کا نام نہیں گھول گھول کر پینے اور جھوٹی قسمیں کھانے کانام نہیں بلکہ اسلامی شریعت نافظ کرنے کا نام ہے۔ جہاں میرا جسم اللہ کی مرضی کے نعرے ہوں اور ہر بنت حوا باعزت ہو اور باحجاب ہو۔