سچ زہر پینے اور جیون تیاگ دینے کا نام ہے ۔خود اپنے ہاتھوں سے زہر کا پیالہ پینے کا مرحلہ قیس اور سقراط سے بھی آگے کا ہے اور جو اس سنگلاخ مرحلہ کو سر کرجاتے ہیں وہی لوگ کامیاب وکامران ہوتے ہیں ۔سقراط کا جرم یہ نہیں تھا کہ وہ سوچنا جانتا تھا اور اسکی سوچ خطرناک تھی، اس کا قصور یہ تھا کہ وہ سوچنا سکھاتا بھی تھا، اس کے زیر اثر ایتھنزکے نوجوان اپنے زنگ آلودہ عقائد اور دیمک زدہ روایات پر سوالات اٹھانے لگے تھے۔سقراط نے کوئی ہتھیار اٹھایا تھا نہ ہی اعلان جنگ کیا تھا بس اس نے سوچنا سکھایا تھا وہ فرسودہ روایات کا منکر اور باغی تھا۔
سقراط نے اپنے سے پہلے دانشوروں کے برخلاف دنیا کو ایک نئے انداز ِمبحث سے متعارف کروایا۔ گوکہ اس کا طریق فسطائی انداز کا حامل تھا لیکن ہم اسے مناظرہ بھی نہیں کہہ سکتے وہ گالم، گلوچ یا ضد بازی نہیں بلکہ عملی اور منطقی بحث سے اخلاقی نتائج تک پہنچتا اور دلائل سے لوگوں پر حقیقت ثابت کرتا تھا۔ وہ پے درپے سوالات کرتا اور پھر دوسروں پر انکے عملی اور منطقی دلائل کے تصادات عیاں کرتا اور یوں مسائل کی تہہ تک پہنچ کر ایسا مدلل جواب سامنے لاتا جسے مخالفین بھی تسلیم کرتے۔
مقصد حیات یہی نہیں کہ ہم اُس جہاں کی طرف سے آئیں کہ جہاں سے نہ توآنا ہماری خواہش ہوتی ہے اور پھر بے مقصد زندگی گزار کر اُس جہاں کی طرف واپس لوٹ جائیں جہاں جانا نہ تو ہماری مرضی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی بہترین تخلیق قرار دیکر اسے اشرف المخلوقات کے منصب پر فائز کرکے اس حضرت انسان کو بہترین بنانے پر قسمیں اٹھائیں ،ایک مومن کے “حرمت” کو بیت اللہ سے زیادہ قرار دیا۔ مگر ہائے افسوس کہ ابن آدم اس دنیا میں آنے کا مقصد بھول بیٹھا ہے اور اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے وعدے یکسر بھلا کر اس عارضی اور دھوکہ کی زندگی کو “ہمیشگی”سمجھ بیٹھا ہے ۔
اللہ تعالیٰ سورة (والعصر)میں ارشاد فرماتا ہے کہ”بے شک انسان خسارے میں ہے۔ (سورة الذاریات ) میں رب کریم انسان کی تخلیق کا مقصد بیان کرتا ہے۔ ترجمہ:اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں،علامہ ابن کثیر ؒ تفسیر مظہری میں اس آیت مبارکہ کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ اللہ رب العزت اس آیت مبارکہ میں فرماتا ہے ،میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی کسی ضرورت کے لیے پیدا نہیں کیا، بلکہ صرف اس لیے کہ ان کے نفع کے لیے اپنی عبادت کا حکم دوں، وہ خوشی نا خوشی میرے لیے معبود ِبرحق ہونے کا اقرار کریں، مجھے پہنچانیں۔ سقراط نے جب زہر کا پیالہ پیا تو ایتھنز کے حکمرانوں نے سکھ کا سانس لیا کہ ان کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے والا مارا گیا، یونان کی اشرافیہ جیت گئی، سقراط کی دانش ہار گئی۔