مغرب نے بھی کیا دنوں کے نام رکھ لیے ہیں مدر، فادر، فرینڈز ڈے اور پتہ نہیں کیا کیا ڈیز ہیں، ان ہی میں سے ایک دن خواتین کا بھی مقرر کر دیا ہے، ہمیں یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ خواتین کا ایک دن کیوں مقرر ہو ہمارے دین اسلام نے تو عورت کو بہت عزت دی ہے قبل اسلام اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی زندہ گور کر دی جاتی تھی، وراثت میں کوئی حق نہیں تھا، لونڈیوں سے بھی بدتر زندگی تھی، اسلام نے ان کو حقوق کے ساتھ ساتھ عزت سے بھی نوازا، ماں، بہن، بیٹی اور بیوی ہر روپ میں اس کو عزت دی، لیکن اس کے بر عکس مغرب نے عورت کو برابری کے نام پر خوب استعمال کیا ہے، مغرب کا کہنا کہ عورت کی ترقی ہی یہی ہے کہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو-
حقیقت یہ ہے کہ اس برابری کے نام پر عورت کے ساتھ ظلم کیا جارہا ہے جو کام اس کے بس کے نہیں ہیں اس کی جسمانی ساخت بھی محتمل نہیں ہوسکتی ان کاموں کو اس کے ذمہ لگا دینا سراسر ظلم ہے، اگر معاشی ترقی میں عورت اپنا کردار ادا کرنے مردوں کے قدم بہ قدم چلے گی تو یہ شیطان کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کے مترادف ہوگا، جس مالی ذمہ داری سے اسلام نے عورت کو بری الزمہ رکھا ہے مغرب نے اس بوجھ کو عورت پر لاد دیا، ان سے یہ بھی برداشت نہیں ہو رہا کہ مسلمانوں کا مستحکم خاندانی معاشرہ کیوں ابھی تک زندہ ہے وہ اس کو توڑنے کے درپے ہیں اور آئے دن کوئی نہ کوئی فتنہ پروری کی چیزیں سامنے لاتےہیں، مہنگائی کے اس دور میں خاندانی منصوبہ بندی کی باتیں کرتے کہ بچے دو ہی اچھے ان سے کہو رازق اللہ تبارک وتعالیٰ ہے وہی سارے جہاں کا پالنے والا ہے۔
ان کی ساری تک و دو مسلمانوں کے خاندانی نظام کو ختم کرنے کے لیے ہے ،انگریز نے سو سال برصغیر میں حکومت کی اور وہ مشترکہ خاندانی نظام کو ختم نہ کر سکا یہ جو رشتوں کی محبت ہے جو ہمیشہ پھولوں کی مہکتی ہے ، پیارے نبی نے فرمایا” تم ایک جسم کی مانند ہو جس کے ایک حصہ میں بھی تکلیف ہوتی تو سارا جسم دکھتا” ہمیں ناٹو کی افواج کے کمانڈر کی یہ بات جو اس نے ایک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئی کہی بھولنی نہیں چاہیئےوہ کہتا ہے کہ “مغرب اسلام کو ڈیفائین کرنے نکلا ہے”
اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی معاشرے اور اقدار کے خلاف مغرب کی جنگ جاری ہے،جاری رہے گی اور یہ ہمارے مستحکم خاندانی نظام کو ختم کرنا چاہتا ہے اور اس کی ساری کوششیں ہماری عورتوں کو گھروں سے باہر نکال کر خاندان میں ٹوٹ پھوٹ پیدا کرنا ہے- جبکہ اسلام میں عورت کو گھر کی ملکہ بنایا گیا ہے، کسب مال کی ذمہ داری اس کے شوہر پر ہے اور اس مال سے گھر کا انتظام کرنا اس کا کام ہے-
“لہذا گھر کی ملکہ کو باہر کی زینت نہ بناؤ”
مجھے پیار ہے اپنے رب سے
جس نے ملکہ بنایا گھر کی