سامیہ یہ دیکھو کتنا خوبصورت سوٹ ہے جو میں نے پہنا ہے اور اس کے ساتھ یہ ایئر رنگز کتنے سوٹ کر رہے ہیں نا فروا نے خوشی خوشی اپنا برینڈڈ سوٹ اور جیولری سامیہ کو دکھاتے ہوۓ کہا۔ سامیہ جو اپنا اسائمنٹ تیار کرنے میں مصروف تھی فروا کا ڈریس اور جیولری دیکھ کر حیران رہ گئی واقعی یہ تو بہت پیارا ڈریس ہے کون سی برینڈ کی لون ہے برینڈ کو چھوڑو یہ بتاؤ آج یونیورسٹی سے واپسی پر میرے ساتھ لنچ پر چلو گی فروا نے کہا ہاں کیوں نہیں سامیہ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
فروا ایک خوبصورت اور امیر لڑکی تھی اس کے والد کا شمار شہر کے بڑے بزنس مین میں ہوتا تھا جب کہ سامیہ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی اور اسکالرشپ پر یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی اور اس کی شکل بھی واجبی سی تھی مگر دونوں میں بڑی گہری دوستی تھی۔
یونیورسٹی کی چھٹی پر فروا کا ڈرائیور آگیا اور دونوں گاڑی میں بیٹھ کر ایک بڑے سے ریسٹورنٹ میں چلی گئیں ہوٹل جا کر فروا نے پیزا اور بہت سا کھانا آرڈر کیا اور پھر اپنے پرس سے موبائل نکال کر مختلف اینگل سے اپنی سیلفیاں لینے لگی اور جلدی جلدی فیس بک، انسٹاگرام اور ٹیوٹر پر اپلوڈ کرنے لگی کچھ ہی دیر میں اس کی تصویروں پر ہزاروں لائیکس اور تعریفوں کے کمنٹس آنے لگے۔ جنہیں دیکھ کر وہ بے حد خوشی کا اظہار کرنے لگی۔ سامیہ جو کہ اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھی تھی اس کی آسائشوں بھری زندگی اور خوبصورتی پر رشک کر رہی تھی اور احساس کمتری کا شکار ہو رہی تھی سامیہ سارے راستے یہی سوچ رہی تھی کہ فروا کی بھی کیا زندگی ہے ہر روز برینڈڈ سوٹ، ہوٹل کا کھانا اور اس کی پُرکشش شخصیت سب کچھ تو ہے اس کے پاس ۔
اگلے دن فروا یونیورسٹی نہ آئی تو سامیہ نے کال کی تو پتا چلا محترمہ بیمار ہیں مگر پھر ایک ہفتے تک فروا یونیورسٹی نہ آئی تو سامیہ نے اس کے گھر جاکر اس کی خیریت لینی چاہی، یونیورسٹی سے واپسی پر وہ اس کے گھر پہنچ گئی ملازمہ نے بتایا کہ فروا اپنے کمرے میں ہے وہ وہیں چلی جائے جب سامیہ کمرے میں پہنچی تو فروا کو بیڈ پر نڈھال پایا جو کہ بخار سے تپ رہی تھی۔ سامیہ نے پوچھا بخار اب تک اترا کیوں نہیں ڈاکٹر کیا کہتے ہیں جب فروا نے بتایا کہ ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ کرواۓ ہیں اس کی رپورٹ آئے گی تو پتہ چلے گا کہ کیا ہوا ہے، خیر سامیہ اس کی خیریت لے کر گھر آ گئی۔ اس کے بعد فروا مزید ایک ہفتے یونیورسٹی نہ آئی پھر ایک دن یونیورسٹی میں اچانک خبر پھیل گئی کہ فروا کی ڈیتھ ہوگئی ہے یہ سن کر سامیہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی وہ یونیورسٹی سے چھٹی لے کر فروا کے گھر پہنچی تو باہر ٹینٹ لگا ہوا تھا اور لوگوں کا رش تھا جب وہ اندر پہنچی تو دیکھا فروا کی ممّا چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں کہ پتا ہی نہ چلا اور کینسر ہماری بیٹی کو 15 دن میں کھا گیا۔ سامنے ہی فروا کی میت رکھی تھی آج نہ اس کے جسم پر برینڈڈ کپڑے تھے نہ جیولری اور نہ میک اپ سفید کفن میں لپٹی فروا تابوت میں لیٹی ہوئی تھی۔ وہ فروا کے قریب جانا چاہتی تھی مگر ہمت ہی نہ جمع کر پائی اتنے میں کچھ لوگ فروا کے تابوت کے قریب آئے اور کلمہ شہادت کہتے ہوئے اس کے تابوت کو اٹھا کر لے گئے۔ سامیہ اپنے وجود کو سنبھال نہیں پا رہی تھی کہ یہ کیا ہو گیا۔ وہ بمشکل اپنے گھر پہنچی اور بہت روئی اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ فروا اس دنیا میں نہ رہی۔
فروا کی موت نے سامیہ کی زندگی بدل دی اب وہ زندگی کو دوسرے رخ سے دیکھنے لگی وہ سوچتی کہ ہمارے اردگرد ہزاروں لوگ روز مرتے ہیں مگر کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فروا کے مرنے سے نہ تو یونیورسٹی میں کوئی فرق پڑا نہ ان ہوٹلوں کو جہاں فروا روز جاتی تھی اور نہ ان پالرو کو اور نہ فیس بک انسٹاگرام پر سب کچھ ویسا ہی چلتا رہا اسی طرح ایک دن ہم بھی چلے جائیں گے اور دنیا میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ فروا کے پاس سب کچھ ہونے کے باوجود مختصر زندگی تھی پھر اس نے سوچا کینسر نہ سہی کوئی اور بیماری،حادثہ یا بڑھاپا کوئی نہ کوئی ہمیں اس دنیا سے جانے کا بہانا بن جائے گا ہم جتنا بھی صحت کا خیال رکھیں جتنی بھی اچھی زندگی گزار لیں بہرحال ایک دن ہمیں اس فانی زندگی کو چھوڑ کر جانا ہے۔ کوئی بادشاہ ہو یا امیر ہو یا غریب اسے بہرحال ایک دن اس دنیا کو چھوڑ کر جانا ہےتو پھر ہم کیوں عارضی آسائشوں کے پیچھے بھاگیں۔ ہمارے عزیز و اقارب میں سے بھی کافی لوگ اس دنیا کو چھوڑ کر جا چکے ہیں مگر ہم خوش قسمت ہیں جو ابھی زندہ ہیں اور ابدی زندگی یعنی آخرت کو سدھار سکتے ہیں۔ سامیہ نے عہد کیا کہ وہ آج سے اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کرے گی اور اپنے اللہ اور رسول کے بنائے ہوئے طریقے پر چلنے کی کوشش کرے گی اور اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول کے پسند کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے گی آج اس کے اندر نیا جوش و ولولہ تھا کسی قسم کی کوئی احساس کمتری نہیں تھی بلکہ وہ بہت خوش تھی کہ وہ صحیح وقت پر صحیح بات سمجھ گئی تھی اور اس کے لیے وہ اپنے اللہ کی بے حد شکر گزار تھی۔