وہ جو آزادی کا سودا کرتے ہیں

روس اور یوکرین کے تنازع میں پاکستان جیسے ملک کے لیے کیا اسباق ہیں؟ یو کرین نے اپنی سلامتی اور تحفظ کی ضمانت کے بدلے 1994 میں سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد اپنے جوہری ہتھیاروں سے دستبرداری کا فیصلہ کیا۔ اپنے ایک بڑے اور طاقتور ہمسایہ روس کی موجودگی اور اس کی جانب سے مستقبل میں نموراد ہونے والے خطرے کو نظر انداز کیا۔ غالباً یوکرین کی اس وقت کی قیادت اس خام خیالی میں رہی کہ روس اسی طرح ایک کمزور حال میں رہے گا اور امریکا اسی طرح دنیا کی واحد سپر پاور کی حیثیت سے دنیا پر راج کرتا رہے گا، ناٹو کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہوئے پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ سہارا کافی ہے۔ تاہم یوں لگتا ہے کہ ‘جن پے تکیے تھے وہی پتے ہوا دینے لگے’ ۔

 2014 میں کریمیہ ہاتھ سے گیا اور امریکا کی اس وقت کی اعلیٰ قیادت جو روس کو محض ایک علاقائی طاقت گرداننے لگی تھی، روس کے کریمیہ کو نگل جانے پر ایسی ہی باتیں بناتی رہی جیسی آج بنائی جا رہی ہیں، یہ اقتصادی پابندی لگا دی جائے گی اور وہ پابندی لگا دی جائے گی، بالکل اسی طرح جیسے ایک پٹتا ہوا کمزور شخص بار بار کہتا ہے “اب کے مار پھر بتاؤں گا”۔

 پاکستان جیسا ملک جس کے پڑوس میں ایک ایسا ملک موجود ہے جس کے جارحانہ عزائم ڈھکےچھپے نہیں بلک ان کا مظاہرہ وہ 1971 میں مشرقی پاکستان پر کھلی جارحیت میں کرچکا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے وہ لیڈر  قابلِ تحسین ہیں جنہوں نے کہا کہ”اگر ہمیں گھاس کھانا بھی پڑے ہم اپنے جوہری پروگرام کو جاری رکھیں گے”۔ پاکستانی قوم ان کی مشکور ہے جنہوں نے اس ملک کو ایک جوہری طاقت بنا دیا اور جنہیں ہم محسنِ پاکستان کے نام سے یاد کرتے ہیں، اس کے باوجود کہ ان پر کسی اور کے کیے دہرے کا الزام بھی دہر دیا گیا۔

خدا کا شکر ہے کہ ہم نے یوکرین کی طرح کا طرزِ عمل اختیار نہیں کیا۔ انشاءاللہ پاکستان کی یہ پالیسی کسی وقت بھی کوئی کمزوری دکھائے بغیر جاری رہے گی، اور ہم اللہ کے اس حکم کے مطابق فیصلے کریں گے کہ اپنی عسکری تیّاری سے دشمن کو مرعوب رکھیں گے۔

سن 2014 کے مقابلے میں روس اقتصادی طور پر بہت بہتر پوزیشن میں ہے، آج روس کے اپنےخزانے میں  موجود سرمائے کے اعتبار سے وہ دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے. مزید یہ کہ پچھلے برسوں میں روس نے اپنی اقتصادیات کو ڈالر کی قید سے خاصا آزاد کر لیا ہے، جس کے لیے روس نے ڈالر سے ہٹ کر سونے کو جمع کرنا اور ایسی دیگر پالیسیوں پر عمل کیا. اس بناء پر روس پر مغرب کی جانب سے لگائےجانے والی پابندیوں کا خاطر خواہ اثر ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس میں پاکستان جیسے اقتصادی طور پر محکوم ممالک کے لیے ایک اچھا سبق ہے۔ اگر معاشی طور ہر کسی پر انحصار رکھیں گے، آپ کی اس کمزور پوزیشن کا فائدہ اٹھایا جاتا رہے گا، بہترین صورت تو یہ ہوگی کہ ہم ہر لحاظ سے خود انحصار ی کی حالت میں آجائیں تاہم، جب تک خود انحصاری کی طرف ہمارا سفر جاری رہے، اپنے اقتصادی معاملات میں تنوّع پیدا کریں اور سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہ رکھے جائیں۔ اس پس منظر میں وزیراعظم کا روس کا دورہ درست جانب پیش رفت ہے۔