کیا واقعی بدترین جمہوریت، آمریت سے بہتر ہے؟

پاکستان میں سیاستدانوں کو یہ قول کہ “بد ترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے” اتنا پسند ہے کہ وہ دن رات بھی اس کو دہراتے رہیں تو تھکتے نہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ عوام سے شکوہ کناں ہیں کہ عوام اس بات پر صبر و شکر کر کے کیوں نہیں بیٹھ جاتے کہ وہ دیکھو کم از کم ہمارے ملک میں جمہوریت تو ہے ناں۔
اب یہ کیسی جمہوریت ہے، کیا کر رہی ہے، ملک کو کتنا فائدہ اور کتنا نقصان دے رہی ہے، اس سے عوام کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔ بس اتنا ہی کافی ہے کہ بدترین جمہوریت بھی ڈکٹیٹرشپ (آمریت) سے بہتر ہے۔

لیکن اب کیا کہیں اس بیچارے عوام کا جو اس زمانے میں نیوز چینلز، انٹرنیٹ، اسمارٹ فونز، سوشل میڈیا کی بھرمار میں نہ صرف سوچنا سمجھنا شروع ہو گئے ہیں بلکہ سیاستدانوں سے کارکردگی سے متعلق الٹے سیدھے سوال پوچھنے کی گستاخی بھی کر گزرتے ہیں۔ ایسے میں بدترین جمہوریت پر بھی عوام کو خوش و خرم رکھنے کی سیاستدانوں کی “معصومانہ” خواہش بھی پوری نہ ہو پائے تو یہ کتنی بڑی ناانصافی ہے۔
نہ جانے کیوں ہمارے سادہ لوح افراد یہ سوچنا شروع ہو گئے ہیں کہ جو برائیاں آمریت سے منسوب کی جاتی ہیں وہ تو ہماری اکثر سیاسی جماعتوں میں بھی ہیں۔ اکثر سیاسی جماعتوں میں موروثی سیاستدان بھی تو بادشاہوں کی طرح ہی باپ کے بعد بیٹے والے فارمولے کے تحت تخت نشین ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ پھر سیاسی رہنما بھی تو آمروں کی طرح ہی حرف آخر قسم کے ذاتی فیصلے مسلط کرتے رہتے ہیں۔ مزیدبرآں مختلف آمریتوں کے دست و بازو بھی تو یہی ہمارے عظیم سیاستدان رہے ہیں جو جمہوری رہنما ہونے کا بھی دعوٰی کرتے ہیں۔ تو پھر یہ ہماری کس قسم کی جمہوریت ہے جسے ہمارے سیاستدان ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ یہ جمہوریت آمریت سے بہتر ہے۔


اگر محض ووٹ لے کر حکومت میں آ جانا جمہوریت ہوتی تو جنگ عظیم دوم چھیڑنے والا جرمنی کا ہٹلر اور اٹلی کا مسولینی بھی تو ووٹ کے ذریعے ہی اقتدار میں آئے تھے، لیکن ان جمہوری رہنماؤں نے دوسری عالمگیر جنگ چھیڑ کر سارے عالم میں خون کی وہ ندیاں بہائیں کہ اس جنگ کے چھ سالوں میں آٹھ کروڑ سے زائد انسان اس دنیا سے گزر گئے۔


حقیقت بات یہ ہے کہ لفظ “جمہوریت”، “آمریت” یا “بادشاہت” اتنے اہم نہیں جتنا کہ اہم لفظ “بدترین” ہے۔ بدترین حکمران چاہے ووٹ لے کر آئے یا آمر ہو یا بادشاہ ہو، ملک تباہ ہی ہو گا اور اگر حکمران اچھا ہو تو وہ ووٹ لے کر آئے یا آمر ہو یا کوئی بادشاہ، ملک و قوم ترقی کریں گے۔ پھر اگر آمریت اور بادشاہت اتنے ہی برے ہوتے کہ جمہوریت کی بدترین شکل بھی ان سے بہتر ہوتی تو کاش کوئی اتنا ہی سمجھا دیتا کہ مصر اور لیبیا کے حالات سابقہ آمریتوں میں بہتر تھے یا عرب بہار کے بعد قائم ہونے والی جمہوری حکومتوں میں بہتر ہیں؟ اسی طرح عراق کے حالات صدام حسین کی آمریت میں زیادہ خراب تھے یا صدام حسین کے بعد امریکی مدد سے قائم ہونے والی جمہوریت میں زیادہ خراب ہیں؟


پھر اگر بادشاہت اتنی ہی خراب شے ہے تو تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک کے عوام بادشاہت کا نظام ہونے کے باوجود بھی اتنے خوشحال کیوں ہیں؟
مقصد یہ نہیں کہ جمہوریت کوئی بری چیز ہے بلکہ بات یہ ہے کہ اچھے لوگوں کا اقتدار میں ہونا انتہائی اہم ہے۔ ترکی، یورپ، امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے جمہوری رہنماؤں سے ہم اپنے جمہوری رہنماؤں کا موازنہ کریں تو آنکھیں بھی بھیگ جاتی ہیں اور دن میں تارے بھی نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں، پھر دل سے یہی صدا نکلتی ہے کہ برے حکمرانوں پر مشتمل جمہوریت بدترین حکومت اور اچھے حکمرانوں پر مشتمل جمہوریت، آمریت یا بادشاہت ہی بہترین حکومت ہوتی ہے، اس لئے زیادہ اہم الفاظ “بدترین” اور “بہترین” ہیں، نہ کہ جمہوریت، آمریت یا بادشاہت۔

حصہ
mm
چکوال کے رہائشی جواد اکرم نے بین الاقومی تعلقات میں ماسٹرز کیا ہے اور عالمی امور پر لکھتے رہتے ہیں۔ملک کے اردو اور انگریزی اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل میں ان کے تجزیے شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں