ابابیلوں کا قصہ تو ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں۔ جب ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر کے ساتھ بیت اللہ شریف پر چڑھائی کر دی تھی۔ مکہ کے لوگ اس لشکر کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ چناچہ انہوں نے اس معاملے کو اللہ رب العالمین کی ذات پر چھوڑ دیا۔ اللہ وہ جو عظیم شان والا جسے اپنے گھر کی ہر ممکن حفاظت درکار تھی۔ ابابیلوں کو حکم دیا کہ وہ ہاتھیوں کے لشکر پرکنکریوں کی بارش کر دیں۔ کنکریوں کی بارش سے ابرہہ کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ اپنے منصوبے میں ناکام رہے۔ یہ وہ حیران کن قصہ ہے۔ جس میں چھوٹے سے پرندوں ابابیلوں کے جھنڈ نے ہاتھیوں کے ایک عظیم لشکر کو شکست دی۔
اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتا ہے: کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ کیا اس نے ان کے مکر و فریب کو باطل و ناکام نہیں کر دیا؟ اور اس نے ان پر ہر سمت سے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے۔ جو ان پر کنکریلے پتھر مارتے تھے۔ پھر اللہ نے انھیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا۔(سورہ الفیل)۔
اس واقع کا اگر سائنسی تجزیہ کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ابابیل پرندے نے کنکر اپنی چونچ میں لیا اور اونچائی سے پھینکا۔ یہ سائنس میں حرکت کی مساوات (Equation of Motion ) سے ثابت شدہ ہے کہ جب کوئی آبجیکٹ (object) اونچائی سے پھینکا جاتا ہے تو ہر سیکنڈ کے بعد اس کی رفتار میں اضافہ ہو جاتاہے۔ اگر وہ کنکریاں ایک منٹ یا ساٹھ سیکنڈ کے فاصلے سے بھی پھینکی گئی تھیں تو ان کی رفتار تقریباً 600 میٹر فی سیکنڈ ہو گی۔
جیسا کہ جب ایک معلق چیز(freely-falling object) کو زمین کی طرف پھینکا جاتا ہے تو اس کی رفتار (initial velocity, ú )صفر ہوتی ہے۔
حرکت کی پہلی مساوات کے مطابق:
v = ú + gt
v = (0m/s)+ gt
v = gt
لہذا اگر بلندی سے زمین کی طرف ، ٹکرانے سے پہلے آبجیکٹ (object) نے ایک منٹ یا ساٹھ سیکنڈ کا بھی فاصلہ طہ کیا ہو۔ تو رفتار (final velocity, v) تقریباً 600 میٹر فی سیکنڈ ہو گی۔
v = (9.8m/s) (60s)
v = 588 m/s
جبکہ ایک رائفل سے نکلی ہوئی گولی کی رفتار تقریباً 180-1500 میٹر فی سیکنڈ ہو سکتی ہے۔ ابابیلوں کی طرف سے کی گئی کنکریوں کی بارش ایسے ہی تھی جیسے کہ گولیاں برسا دی گئی ہوں۔ جس کی وجہ سے ہاتھیوں کے لشکر کو وہ کنکریاں لہو لہان کر دیتی تھیں۔ اور یوں ہاتھیوں کے طاقتور لشکر کی نسبت کمزور پرندوں کاجھنڈ اللہ کی مدد سےکامیاب ہوا۔